ہر مسجد میں اس طرح کے پروگرام منعقد کرنا وقت کا تقاضہ : مقررین کا اظہارِ خیال
بھٹکل 03/ فروری 2020(فکروخبر نیوز) تقریباً آٹھ سو سال سے قائم جماعت المسلمین بھٹکل نے غیر مسلموں میں پائی جارہی بدگمانیاں دور کرنے کے عظیم مقاصد کے تحت جامع مسجد بھٹکل کے دروازے غیر مسلموں کے لیے کھول دئیے جنہو ں نے وہاں پہنچ کر جامع مسجد کا نہ صرف دورہ کیا بلکہ باجماعت عشاء کی نماز بھی قریب سے دیکھی اور وہاں منعقد ہونے والے پروگرام میں شرکت کرکے اپنے زریں خیالات کا اظہار کیا، مہمانوں نے جماعت المسلمین کے اس کام کی سراہنا کرتے ہوئے کہا کہ بچپن سے ہم پیار ومحبت اور امن وامان کے ماحول میں رہتے آرہے ہیں لیکن موجودہ دور میں ضرورت اس بات کی ہے کہ نئی نسل کو اس کے حقائق سے معلوم کیے جانے کے لیے اس طرح کی کوششیں کی جائیں تاکہ مستقبل میں بھی شہر میں یہ خوشگوار ماحول برقرار رہ سکے۔ انہوں نے مسجد پہنچنے پر عجیب خوشی کا اظہار کیا، استقبال کے لیے ایک بڑی تعداد مسجد کے باہر اور اندر موجود تھی جنہو ں نے غیر مسلموں کا پوری گرمجوشی کے ساتھ استقبال کیا اور وضوخانے سے لے کر محراب اور مسجد کے ہر حصے کے متعلق انہیں معلومات فراہم کیں۔ اڈپی سے تشریف لائے ہوئے اڈپی ضلع مسلم اوکوٹۃکے صدر جناب محمد یاسین ملپے نے مسجد میں انجام پانے والے ہر عمل کی تفصیلات پر روشنی ڈالی اور اس فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے سعی کرنے پر زور دیا۔
مولانا ابوالحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی بھٹکل کے جنرل سکریٹری مولانا محمد الیاس صاحب ندوی نے بھٹکل کے ہندو مسلمانوں کے اتحاد کی کئی ایک مثالیں پیش کرتے ہوئے اسے مزید تقویت پہنچانے کے لیے حاضرین سے درخواست کی۔ مولانا نے کہا کہ یہاں کے ہندو مسلم بھائی چارہ پر روشنی ڈالتے ہوئے حال ہی میں انتقال کرجانے والے پجاور مٹھ کے سوامی جی کا تذکرہ کیا اور کہا کہ جہاں پر وزیر اعظم سے لے کر صدر جمہوریہ تک کی آمد ہوتی ہے وہاں کے سوامی جی کا بھٹکل آنا ہی اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ یہاں کے مسلمانوں کے غیر مسلموں کے ساتھ بہتر تعلقات ہیں اوراب وہ وقت آگیا ہے کہ یہ تعلقات اتنے مثالی ہونے چاہیے کہ آج ہمیں پھر ایک مرتبہ یہ ثابت کرنا ہے کہ بھٹکل وہ نہیں ہے جو میڈیا میں دکھا یا جاتا ہے بلکہ بھٹکل وہ ہے جو آج عشاء کی نماز کے وقت بھٹکل کی جامع مسجد جس کی گواہی دے رہی ہے۔ انہو ں نے کہا کہ مندروں کے متعلق کوئی بدگمانی پیداکرنے کی کوشش کرے تو اس کے دفاع میں مسلمان کھڑے ہوجائیں اور مساجد کے متعلق بدگمانیاں پیدا کرنے کی کوشش کی جائے تو ہمارے ہندو بھائی اس کا جواب دیں۔جس کی مثالیں آج سنگاپور میں کثرت سے پائی جارہی ہیں۔ مولانا نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ایسے اجلاس صرف شہروں میں ہی نہیں بلکہ ہر گاؤں کی مسجدوں میں ہونے چاہیے اور پیاومحبت کا پیغام عام کرنے کے لیے ہم سب کو فکر مند ہونا چاہیے۔
جملہ مہمانوں کے لیے عشائیہ کا اہتمام کیا گیا تھا۔
Share this post
