میرے استادوں کی روشن کہکشاں
جس نے گلشن کو کیا رشکِ اِرم
اُن کی ہستی ہے چراغِ رہ گزر
نُور کے ہالے کو تاروں کا سلام
بھٹکل: 10مارچ2020(فکروخبرنیوز)جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں طویل خدمات اور متعینہ مدت کی تکمیل کے بعد سبکدوش ہونے والے اساتذہ کرام مولانا ناصر صاحب اکرمی ، جناب ماسٹر سیف اللہ صاحب، مولانا ناصر الاسلام صاحب ندوی اور مولانا الطاف صاحب افریکہ ندوی کے اعزاز میں جامعہ آباد کی مسجد میں ایک تہنیتی و الوداعی جلسہ منعقد کیا گیا جس میں ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں اعزازو اکرام سے نوازا گیا ۔
واضح رہے کہ اس نوعیت کا پہلا جلسہ تھا جو کل 13 رجب المرجب 1441ھ بروز پیر صبح پونے بارہ بجے جامعہ آباد کی مسجد میں رکھاگیا، اس کا آغاز عزیزم عبدالعزیز مجدی کی تلاوت سے ہوا اور عزیزم سید نبیغ برماور نے نعتیہ کلام مترنم آواز میں پیش کیا۔
استاد ایک چراغ ہے جو تاریک راہوں میں روشنی کے وجود کو برقرار رکھتا ہے۔ اُستاد وہ پھول ہے جو اپنی خوشبو سے معاشرے میں امن، مہرومحبت و دوستی کا پیغام پہنچاتا ہے۔ اُستاد ایک ایسا رہنما ہے جو آدمی کو زندگی کی گمراہیوں سے نکال کر منزل کی طرف گامزن کرتا ہے۔استاد وہ عظیم رہنما ہے جو آدمی کو انسان بنا دیتا ہے، آدمی کو حیوانیت کے چُنگل سے نکال کر انسانیت کے گُر سے آشنا کرواتا ہے۔ آج انسانیت جہاں کھڑی ہے وہ اساتذہ کی راہنمائی اور ان کے تجربات اور ایجادات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں تک پہنچی ہے۔
دیکھا نہ کوہ کن کوئی فرہاد کے بغیر
آتا نہیں ہے فن کوئی استاد کے بغیر
جلسہ کی نظامت مہتمم جامعہ مولانا مقبول احمد صاحب کوبٹے ندوی نے سنبھالتے ہوئے استاد کے حقوق اور ان کی تگ و دو پر مختصراًروشنی ڈالی اور ان کے حق میں کلمات تہنیت پیش کی نیز جامعہ اسلامیہ میں اپنی خدمات پیش کرنے والے پچاسوں اساتذہ کا ذکر کیا جن میں سے اکثریت اس دنیا سے رخصت ہوچکی ہے۔اللھم اغفر لھم وارحمحم
ساتھ ہی ساتھ مولانا نے اساتذہ کے حقوق کو ادا کرنے اور ان کی کما حقہ قدر کرنے کی نصیحت بھی فرمائی۔
اس موقع پر ناظم و نائب ناظم جامعہ نے ان اساتذہ کو خصوصی مبارکباد دی اور ان کے حق میں تہنیتی کلمات پیش کیے۔ اور کہا کہ حقیقتاً ان کا بدلہ اللہ رب العزت ہی کے پاس ہے، لیکن یہ ایک اور طلبہ کو ان سے حتی المقدور فائدہ اٹھانے کی تلقین کی
استاد محترم جناب ماسٹر سیف اللہ صاحب نے اپنے دوران تدریس کے تاثرات و احساسات کو پیش کرتے ہوئے رب ذوالجلال کے بعد ذمہ داران جامعہ کا شکریہ ادا کیا، اور کہا کہ در حقیقت ہمیں ملت کی شیرازہ بندی کے لیے مزید کام کرنا اور تادم آخر جامعہ سے جڑ کر ہر ممکن استفادہ کرنا ہے۔
جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں
موصوف نے انگریزی، سیاست، تاریخ و جغرافیہ وغیرہ مضامین کو پڑھایا اور طلبہ کو گھول کر پلادیا، آپ نے کتنی نسلوں کو اپنی تدریس سے مستفید کیا جو آج دنیا کےکونے کونے میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں اور علم دین کی خدمت پر مامور ہیں، یہ سب آپ ہی کا فیض ہے۔اللہ آپ کو اس کا بہترین بدلہ عطا فرمائے۔
ان کے بعد ناظر کتب خانہ مولانا ناصر الاسلام صاحب ندوی نے اپنے ذاتی تجربات اور جامعہ کی چہاردیواری میں بیتے لمحات، بزرگوں اور اسلاف کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے والدین، اساتذہ اور بزرگوں کے حق میں دعائےمغفرت کی اور اپنی ترقی کا راز یہ بتایا کہ میں نے ہمیشہ اپنے بڑوں کی اطاعت کی، اور ان سے دعائیں لیں، خصوصاً فرمایا کہ حضرت مولانا علی میاں ہر وقت یہ دعا دیتے تھے ، یہ انہی حضرات کی دعاوں کا نتیجہ ہے جو آج اتنی عزت افزائی کی جارہی ہے۔
ملحوظ رہے کہ اس مناسبت سے استاد جامعہ مولانا سمعان صاحب خلیفہ ندوی نے اپنے اساتذہ کی محبت میں ایک منظوم کلام تیار کیا جسے عزیزم سید عبداللہ برماور نے اپنی خوبصورت آواز میں پڑھا جس میں آپ نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہین ترقی کا ضامن قرار دیا۔سامعین نے اس کو خوب سراہا۔
اس دوران رکن شوری مولانا عبدالعظیم صاحب ندوی، استاد جامعہ مولانا عبدالرب صاحب ندوی، مولانا خواجہ صاحب ندوی وغیرہم نے ان اساتذہ کو خراج تحسین پیش کیا۔
اخیر میں ذمہ داران جامعہ اور اساتذہ عالیہ کی جانب سے ان خیر اندیشوں کو اعزازیہ و انعام سے نوازا گیا۔
صدر جامعہ مولانا محمد اقبال صاحب ملا ندوی کی دعا پر جلسہ بوقت ظہر اختتام پذیر ہوا۔
جس نے اپنا آشیانہ پھونک کر
مجھ کو اڑنے کا سلیقہ دے دیا
جس نے ہستی کو منور کردیا
اس کو ہم انجم شماروں کا سلام
علاقات عامہ
جامعہ اسلامیہ بھٹکل
Share this post
