وہ علم حاصل کرتے اور اس کو زندگی میں جاری نہیں کرتے تھے ، اسلام نے اس طرف توجہ دلائی اور علم کو زندگیوں میں نافذ کرنے کا طریقہ بتلایا ۔ ان خیالات کا اظہارصدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور ناظم ندوۃ العلماء حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی نے کیا ۔ وہ جامعہ کی وسیع وعریض مسجد میں منعقدہ جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے سالانہ جلسہ میں حاضرین سے مخاطب تھے ۔ مولانا موصوف نے علم وعمل کے بندھن کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ صحابہ کرام علم کو عمل سے جوڑ دیتے تھے اور یہی کام مدارس کا بھی ہے ، یہاں وہ علم سکھایا جاتا ہے جس سے زندگی بنتی ہے اور یہ بات صحبت سے بھی ظاہر ہوتی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو صحبت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو ملی اور اس سے جو علم حاصل کیا اپنی زندگی ، اپنے خیالات اور عقیدے کو اس کے مطابق ڈھال دیا اور پھر یہ علم صحابہ سے تابعین نے اور تابعین سے تبع تابعین نے حاصل کیا ۔ انہوں نے کہا کہ دو چیزیں ہیں ایک صورت او ردوسری سیرت ، ہم دونوں میں بلند نظر آئیں ، آدمی سامنے تو اچھا نظر آتا ہے لیکن اس کی سیرت بھی اچھی ہونی چاہیے ۔صحابہ کرام کے قصوں اور ان کی زندگی کے حقیقی آئینے کو طلباء کے سامنے رکھتے ہوئے مولانا موصوف نے مزید فرمایا کہ کہ صحابۂ کرام قرآن وحدیث سے جو علم حاصل کیا وہ اپنے زندگیوں میں نافذ کیا او ریہی پیغام لوگوں کو دیا ، مدارس نے بھی علم کو عمل سے جوڑنے کا کام انجام دیا ۔مولانا نے کہا کہ علم کو قلم سے محفوظ کرلیا جاتا ہے اوراللہ نے انسان کو جانور سے بہتر بنایا ہے جانور کے حالات کی طرح ا س کی زندگی نہیں ہے البتہ انسان اپنے بھائی ، ماں باپ اور پڑوسیو ں وغیرہ کا خیال کرتا ہے اور یہ چیز اساتذہ اور شہر کے بزرگوں سے بھی حاصل کی جاسکتی ہے تو دنیا آپ سے فائدہ اٹھائے گی اور آپ کو تسلیم کرے گی ۔ مولانا مدظلہ نے خود اپنی ذات پر اصلاحی فکر پر زور ڈالتے ہوئے آواز دی کہ سب سے پہلے اپنی اصلاح کی فکر ہونی چاہیے اور اپنی زندگی کوعمل کرنے پر مجبور کیا جائے۔ جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے تعلق سے مولانا موصوف نے فرمایاکہ یہاں کی فارغین میں بڑی خوبیاں ہیں اور یہاں کے طلباء دار العلوم ندوۃ العلماء آتے ہیں تو بڑی خوشی محسوس ہوتی ہے انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہاں کہ طلباء اچھے اخلاق کے حامل ہونگے ۔
بھٹکل کے لوگوں میں قوتِ عمل ، نشاط اور خود اعتمادی ہے : مولانا واضح رشید ندوی
ندوۃ العلماء کے معتمد تعلیمات مولانا سید واضح رشید ندوی نے اس موقع پر طلباء سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ یہاں کے لوگوں میں قوتِ عمل ، نشاط اور خود اعتمادی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اس وجہ سے جامعہ سے تعلق رکھنے والے جتنے علماء میدانوں میں کام کررہے ہیں وہ کسی دوسرے اداروں کے نہیں ہے ۔ انہو ں نے یہاں کے فارغین کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی تربیت سے آپ کا تشخص ظاہر ہوتا ہے ۔ آپ جتنے مختلف میدانوں میں ہے وہاں آپ داعی بن کر رہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ کا تعلق بھی عربوں سے ہے اور ان کی یہ خوبی تھی کہ جہاں بھی جاتے تھے وہاں دعوت کا کام انجام دیتے تھے ۔ جامعہ کی رپورٹ پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سن کر بڑی فرحت ہوئی اور جامعہ میں اتنی وسعت ہے مجھے اس کا علم نہیں تھا۔
مہتمم جامعہ مولانا عبدالباری ندوی نے سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے تذکرہ کیا کہ جامعہ میں جہاں تعلیم کا نظم ہوتا ہے وہیں تربیت پر بھی توجہ دلائی جاتی ہے اور اس سلسلہ میں سال کے شروع میں اساتذہ کے مابین تبادلہ خیال بھی ہوتا ہے جس میں کئی تجاویز منظور کرکے اس پر عمل درآمد کیا جاتا ہے ۔ یہاں کے طلباء ثقافتی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کا مظاہر کرتے ہیں ۔ اس موقع پر طلباء کا مختصر پروگرام بھی پیش کیا گیا ۔ مولانا محمد اقبال نائطے ندوی نے نظامت کے فرائض انجام دےئے ۔ بانی جامعہ ڈاکٹر علی ملپا صاحب کی دعا پر یہ جلسہ اختتام پذیر ہوا ۔
![]()
![]()
![]()
Share this post
