بھٹکل کا قضائتی نظام مثالی ، جماعتی نظام سے جڑے نہ رہنے کی وجہ سے ہندوستان کے مسلمان ہیں حالات سے دوچار : مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
بھٹکل04؍ جنوری 2023(فکروخبرنیوز) جماعت المسلمین بھٹکل کے قیام کو ایک ہزار سے زائد عرصہ گذرنے پرجماعت کی تاریخ ، اسلاف کی قربانیوں سے نئی نسل کو روشناس کرانے اور جماعتی خدمات کو منظرِ عام پر لانے کے لیے شہر کی جامع مسجد سے متصل برنی مٹی نامی میدان میں دوروزہ پروگرام کا آغاز آج صبح ساڑھے دس بجے عمل میں آیا۔
افتتاحی نشست میں جماعت کے قیام کو ایک ہزار سال سے زائد عرصہ گذرنے پر اللہ رب العزت کا شکرادا کیا گیا اور مستند تاریخی حوالوں سے اس کے دلائل بھی پیش کیے گئے۔ جماعت المسلمین کے قضاۃ ، دعاۃ اور مخلصین کا تذکرہ کرتے ہوئے نئی نسل کو بھی اسی طرح قوم وملت کی خدمات پر ابھارنے کی کوشش کی گئی اور بتایا گیا کہ اگر بعد والے لوگ یاد نہ بھی رکھیں تو ہمارے اندر خدمت کا جذبہ کم نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہمارے اندر داعیہ ہی یہی ہونا چاہیے کہ ہم جو بھی خدمات انجام دیں گے وہ اللہ کے لیے ہوگی چاہے کوئی یاد رکھے یا نہ رکھے۔
پروگرام کے کنوینر مولانا محمد الیاس ندوی نے تاریخی حوالوں سے اس بات کی وضاحت کی کہ بھٹکل میں مسلمانوں کی آمد کو نہ صرف ہزار سالہ بلکہ چودہ سو سال کا عرصہ بیت چکا ہے جس کی کئی ایک مثالیں انہوں نے پیش کیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھٹکل کے یہ مسلمان اپنی دینی شناخت کے ساتھ آج بھی اس سرزمین پر بس رہے ہیں، انہوں نے آثارِ قدیمہ کے حوالہ سے بھی دلائل پیش کرتے ہوئے نئی نسل کو جماعت سے جڑے رہنے کا درد بھرا پیغام دیا۔
اسی تاریخی روایات کو آگے بڑھاتے ہوئے مولانا محمد شفیع قاسمی نے تاریخی روایات اور حوالوں سے یہ بات ثابت کردی کہ بھٹکل اور آس پاس کے علاقوں میں مسلمانوں کی آمد سن 22 ہجری کی ہے۔ انہوں نے مشہور سیاح ابن بطوطہ سمیت زین الدین ملیباری ، مالک بن دینار اور کئی ایک بزرگوں کے حوالہ سے باقاعدہ طور پر یہ ثابت کردیا کہ بھٹکل میں مسلمان ایک ہزار سال سے زائدعرصہ بلکہ چودہ سو سال سے بس رہے ہیں۔
آل انڈیا مسلم پرنسل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے کہا کہ اجتماعیت کے قیام کے لیے بنیاد طاعت ہے، آپ کو ہرحال میں بات ماننی پڑے گی چاہے آپ کی طبیعت گوارا کرتی ہو یا نہ ہو۔ مولانا نے ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں کہا کہ مسلمان جن حالات سے دوچار ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ ان کا قضائت کے نظام سے مربوط نہ رہنا ہے انہوں نے بھٹکل کے قضائتی نظام کو مثالی قرار دیتے ہوئے اہالیانِ بھٹکل کی ایک اور خصوصیت بیان کی اور کہا کہ یہاں کے مسلمان اپنی تہذیب سے جڑے ہوئے ہیں۔ مغرب اپنی تہذیب کو پوری دنیا میں عام کرنے کے لیے کوشاں ہیں لیکن جب مسلمان اپنی تہذیب سے جڑا رہے گا تو اپنے دین سے بھی وہ جڑا رہے گا۔
ندو العلماء لکھنو کے نائب ناظم مولانا بلال عبدالحی حسنی ندوی نے کہا کہ یہاں کے مسلمانوں کو وحدت کی جس نعمت سے اللہ تعالیٰ نے نوازا ہے اس پر شکرا ادا کریں اور اس کا شکر یہ ہے کہ اس کو بڑھانے کی کوشش کی جائے۔ مولانا نے بھٹکل والوں سے اپنے لگاؤ اور قلبی تعلق کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی خوشی ہماری خوشی ہے اور آپ کی ترقی ندوۃ العلماء اور ہماری ترقی ہے۔ مولانا نے خود کو میزبانوں میں شمار کرتے ہوئے اپنی دلی مسرت کا اظہارکیا۔
ان کے علاوہ سکریٹری آل انڈیا مسلم پرنسل لا بورڈ مولانا عمرین محفوظ رحمانی ، سابق آئی جی پی بنگلور جناب نثار صاحب ، سابق جج ممبئی ہائی کورٹ جناب جسٹس شفیع صاحب پرکار ، امام وخطیب جامع مسجد بھٹکل مولانا عبدالعلیم ندوی ، صدر جماعت المسلمین بھٹکل جناب ماسٹر شفیع صاحب وغیرہ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
قاضی جماعت المسلمین بھٹکل مولانا عبدالرب صاحب ندوی نے صدارتی خطاب میں کہا کہ ہمیں اپنے معاشرتی اور عائلی زندگی میں اللہ کے احکامات کا پابند ہونا چاہیے۔ ہمارے قضیہ اپنے شریعت کی روشنی میں حل کریں ، مولانا نے مثال کے ذریعہ سے بتایا کہ لوگوں کا گمان ہے کہ سرکاری عدالتوں میں جانے سے ان کی ناک اونچی ہوگی اور انہیں فائدہ ملے گا ، ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ وہاں جانے سے دنیا کا بھی نقصان ہے اور دین کا بھی۔
پروگرام میں پچاس سال سے زائد عرصہ بھٹکل سے باہر رہ کر دین کی خدمات انجام دینے والی دو عظیم شخصیات مولانا غزالی ندوی اور نائب مہتمم دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو مولانا عبدالعزیز خلیفہ ندوی کا تذکرہ کیا گیا اور مولانا عبدالعزیز صاحب کی شال پوشی کرتے ہوئے ان کی خدمات کا اعتراف کیا گیا۔ اسی طرح کم عمر اور عمر رسیدہ حفاظ اور حافظات کا اعزاز کیا گیا جن میں قاضی خلیفہ جماعت المسلمین بھٹکل مولانا خواجہ معین الدین ندوی مدنی ، ہزار سالہ پروگرام کے کنوینر اور علی پبلک اسکول کے روحِ رواں مولانا محمد الیاس ندوی ، اسی طرح کم عمر حفاظ میں مولانا عمر سلیم ندوی کی دو صاحبزادیوں سمیت سمیت سات سالہ حافظِ قرآن محمد بن مناظر حسن شوپا وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ اسی طرح پیسٹھ سالہ بیوہ خاتون کے حافظہ قرآن بننے پر بھی ان کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے انعام کو رشتہ دار کے حوالے کیا گیا۔
نظامت کے فرائض نائب قاضیان مولانا محمد انصار ندوی مدنی اور مولانا عبدالنور ندوی نے انجام دئیے۔
پروگرام میں پارکنگ اور دیگر سہولیات کے لیے شہر کے تمام نوجوان بالکل مستعد نظر آئے۔ پروگرام میں پنڈال کے لیے ناریل کے درخت سے جڑی کئی ایک چیزوں کو استعمال کرتے ہوئے تہذیب ثقافت کو اجاگر کیا گیا۔
Share this post
