اسی روز صبح ساڑھے گیارہ بجے محاضراتی نشست کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں علیا درجات کے لیے ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی نے ’’ استشراق اور مشتشرقین ‘‘ کے عنوان پر اپنے محاضرہ پیش کیا ۔ ڈاکٹر موصوف نے اپنے محاضرے کے دوران کہاکہ مشتشرقین مسلمانوں کو ایمانی قوت سے دور کرنے اور مذہبِ اسلام کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کرنے کے لیے جاں توڑ کوششیں کررہے ہیں اس طور پر کہ وہ اس دین سے بیزار ہوکر نصرانیت اختیار کرلیں ۔انہوں نے اسلام کے تمام فنون پر اس لیے مہارت حاصل کی تاکہ اسلام کے احکامات میں نقص نکالا جائے اور لوگوں کو دین اسلام سے عملی طور پر نہ سہی بلکہ ذہنی طور پر بدظن کیا جائے اور اس کے لیے مختلف اداروں کی بنیاد رکھی گئی جہاں ایک ایسی جماعت تیار کی جاتی ہے جو لوگوں کے اذہان کو اسلام بیزاری سے مسحور کرنے کا کام انجام دیں ۔ مولانا ابراہیم ندوی نے سفلیٰ درجات کے لیے منعقدہ محاضراتی نشست میں امام شافعی اور ان کا بچپن کے عنوان پر طلباء سے کہا کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بچپن ہی سے اعلیٰ اخلاق کے حامل تھے ۔ انہوں نے علمِ دین حاصل کرنے کے بعد دوسروں تک پہنچانے کا فریضہ بھی انجام دیا ۔ اپنے محاضرہ میں طلباء کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ جب تک علم کے ساتھ عمل نہ ہو اور اخلاق کی درستگی کا جذبہ نہ ہو تو وہ علم نفع بخش نہیں ۔ انہوں نے امام شافعی رحمۃ اللہ کی ذہانت کا تذکرہ کرتے ہوئے اس بات کی طرف طلباء کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی کہ اسباق کے دوران اہم باتوں کو نوٹ کیا جائے اس سے علمی فائدہ زیادہ حاصل ہوتا ہے ۔ ان دوپروگراموں کے انعقاد پر اساتذائے جامعہ نے طلباء کو مبارکباد پیش کی ۔
Share this post
