کاسرگوڈ : 18/ فروری 2020(فکروخبر نیوز) انسانیت سوز حرکتیں جتنی بھی اخباروں کی زینت بنتی رہیں لیکن ابھی بھی انسانیت زندہ ہے اور کچھ ایسے کام ہورہے ہیں جس سے انسانیت کا سر فخر سے اونچا ہوجاتا ہے۔
ہندوستان میں ہندو مسلم بھائی چارہ کی مثال تو اس کی تہذیب کا ایک اٹوٹ حصہ ہے۔ اس کو توڑنے کی جتنی بھی کوششیں کی جائیں لیکن معاشرہ میں کئی ایسی مثالیں وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہتی ہیں جس سے نہ صرف انسانیت کے زندہ ہونے کی بات سامنے آتی ہے بلکہ اس بھائی چارہ کو مزید تقویت ملتی ہے۔
اپنے عمر کی بائیس سالوں میں سے بارہ سال راجیشوری نے ایک مسلم جوڑے کے ساتھ گذارے جنہو ں نے کبھی بھی اسے یتیمی کا احساس نہیں ہونے دیا اور اپنے دیگر اولاد کی طرح اس کی نہ صرف پرورش کی بلکہ ایک ہندو لڑکے سے اس کی شادی بھی کرادی۔
کاسرگوڈ کے کنہانگڑ سے تعلق رکھنے والے عبداللہ اور اس کی اہلیہ خدیجہ کے کھیت میں راجیشوری کے والد کام کیا کرتے تھے جبکہ اس کی عمر صرف سات کی تھی۔ تین سال بعد اس کے والد فوت ہوگئے اور اس طرح اس کے سر سے والدین کا سہارا اٹھ گیا۔ عبداللہ نے اس کے بعد سے اس کی پرورش کی۔ اور اسے اپنے دیگر بچوں نجیب، شریف اور شمیم کی طرح بڑا کیا۔
جب راجیشوری کی عمر 22سال کو پہنچی تو انہیں اس کی شادی کی فکر سوار ہوئی اور اس کے لیے ایک اچھے لڑکے کی تلاش شروع کردی۔ بالآخر وشنو پرساد نامی لڑکے سے اس کا رشتہ طئے ہوگیا۔ زیورات، کپڑے اور دیگر سازوسامان کی خریدی کے بعد عبداللہ نے اس کی شادی ہندو رسم ورواج کے مطابق کرادی۔
مسلم جوڑے کی جانب سے ایک ہندو لڑکی کی پرورش کے بعد اس کی شادی ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے شخص کے ساتھ تمام تر ہندو رسم ورواج کے ساتھ کرائے جانے کی مثال دوسروں کے لیے واقعی قابلِ عمل ہیں،یہ مثال مختلف مذاہب کے درمیان نفرتوں کی بیج بونے والوں کے لیے ایک کھلا پیغام دے رہی کہ کہ آج بھی ہندوستان کی اصلی تہذیب زندہ ہے۔
Share this post
