انسان جب دنیا کا سفر کرتا ہے تو اپنی حیثیت کا پتہ لگتاہے

مولانا جنوبی افریقہ ،تنزانیہ اور کینیا کے مختلف شہروں میں ہوئے اپنے دوروں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ یہ بات کہنے میں مجھے رتی برابر جھجک نہیں کہ تبلیغی جماعت کا کام جتناان علاقوں میں ہورہاہے شاید ہی کہیں ہورہاہے اس کے مدمقابل ہندوستان کی بات کریں تو بہت ہی کم ہے،ہم پر اللہ تعالیٰ کے بے شمار احسانات ہیں، مگر بے سروسامانی اور غربت کے حالت میں بھی تبلیغی کام جو ہورہاہے اس کا لفظوں میں بیاں ناممکن ہے ۔ اگر یہ محنت وہاں نہ ہوئی ہوتی تو وہاں عیسائیت اور الحادکا غلبہ ہوتا۔ ہم سوچتے بہت ہیں مگر کرتے کم ہیں مگر وہا ں سوچتے کم اور کرتے زیادہ ہیں۔ مولانا نے ہزاروں مکاتب اور مدارس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ گجرات سے تعلق رکھنے والے احباب اور قاسمی و ندوی علماء کرام اپنا پورا پورا وقت دے کر اپنی ساری زندگی دینی دعوت کے لئے دے رہے ہیں، بڑے بڑے تاجر،اپنے گھر بار کو ہی مدرسہ اور مکاتب میں تبدیل کردیا ہے، دیکھنے میں سیدھے سادھے ، بظاہر لگتاہے کہ کچھ بھی نہیں مگر ہم قریب گئے اور دیکھا تو کسی کی فیکٹریوں کے بچھے جال کو دیکھ کر حیران رہ گئے تو کسی کی دولت و ثروت دیکھ کر مگر ہر ایک کے دل میں دینی حمیت اور ہر کوئی کسی نہ کسی طور پر تبلیغِ دین میں جڑا ہے اور کوئی تو اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا ہے ۔ مولانا نے یہاں اپنے میزبانوں کا دیگر اُن علماء و فضلاء کا جن سے ملاقات ہوئی ناموں کے اظہار کے ساتھ کہا کہ ہم بھی اپنے ساتھ کچھ لائے ہیں اور ابوالحسن علی اکیڈمی کے اسلامی نصاب کو پیش کیا اور کہا کہ اکیڈمی کے نام کے بغیرآپ اس کو چلائیں بجٹ کی کوئی بات نہیں تو الحمدللہ ہر ایک نے اس کو تسلیم کیااور اپنے مکاتب و مدارس اور اسکول وکالجس میں اس نصاب کو عام کرنے کی بات کہی۔ مولانا اس موقع پر کئی واقعات کے حوالے سے طلباء سے مخاطب ہوکر کہا کہ ارادہ کریں کے پورے عالم میں کام کرنا ہے ، اور مولانا ایوب ندوی دامت برکاتہم کے حوالے سے کہا کہ اللہ سے اسقدر مانگوں جس کا وہ اہل ہے ، تھوڑے تھوڑے پر اکتفا نہ کرو، ہمیں انگریزی و دیگر زبانوں میں عبور حاصل کرنا ہوگا، بقیہ دنیا تو خود بہ خود قدموں پر چل کر آئے گی،مولانا موصوف نے اس موقع پر ومولانا ابوالحسن اسلامک اکیڈمی کے اُن ابتدائی ایام کو بھی یاد کیا جسکی ابتداء ایک چھوٹے سے گھر سے ہوئی تھی اور مقاصد سامنے نہیں تھے مگرجو ارادے کئے تھے وہی مقاصد میں تبدیل ہوگئے اور پھر انہی مقاصد میں وسعت پھیلتی چلی گئی مگر پھر بھی کچھ بھی کام نہ ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ مولانامزید کہا کہ اس دورے میں اسلامیات نصاب ، بردارن انسانیت کے لئے تعارف اسلامی اور مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ سے منسوب علی پبلک اسکول کا تعارف ان مذکورہ ممالک میں پیش کیا گیا، مولانا نے اس موقع پر یہ خوشخبر ی بھی سنائی کہ تنزانیہ اور کینیا میں علی پبلک اسکول کی شاخوں کا آغاز ہوچکا ہے ، اور یہ دعوتی دورہ وہاں کے مختلف تعلیمی ادارے ، و تنظیمیں جو مولانا ابولحسن علی اکیڈمی کے کام سے متاثر ہوئے تھے انہی افراد کے دعوت پر کیا گیا تھا۔ اس کے بعد مولا نا نعمت اللہ صاحب جو رفیقِ سفر تھے انہوں نے بھی سفر کی کچھ کٹھی میٹھی یادوں کا تذکرہ کیااور کہا کہ میں نے ہر چیز ڈائری میں محفوظ کرلی ہے ، انشاء اللہ اس کوترتیب دے کر کتابی شکل میں منظر عام پرلائی جائے گی۔ ملحوظ رہے کہ جلسہ کی ابتداء برادرم محمد سفیان رکن الدین کی تلاوتِ کلام پاک سے ہوا، انس ابوحسینا نے بارگاہِ رسالت میں ہدیہ تہنیت پیش کی۔جلسہ کے صدر قاضی جماعت المسلمین مولانا اقبال ملا صاحب کی دعائیہ کلمات پر جلسہ اپنے اختتام کو پہنچا۔

Share this post

Loading...