بھٹکل میں کورونا کے بڑھتے معاملات!  احتیاطی تدابیر کس حد تک ہیں ضروری؟

تحریر عتیق الرحمن ڈانگی ندوی

(رفیق فکروخبر بھٹکل)

چین کے ووہان سے نکلنے والے اس وائرس کے تعلق سے شاہد ہی بھٹکل کے کسی فرد نے سوچا تھاکہ ایک دن یہ ہمارے علاقہ کو بھی اپنے لپیٹ میں لے لے گا اور ہم بھی اسی طرح گھروں پر رہنے پر مجبور ہوجائیں گے جس کی تصاویر سوشیل میڈیا اور اخبارات میں دیکھتے تھے۔ 19مارچ کو بھٹکل تعلقہ سے تعلق رکھنے والے ایک بائیس سالہ لڑکے میں کورونا کے اثرات پائے گئے جس کے بعدمحسوس یہ ہونے لگا کہ یہ بیماری جلد ہی بھٹکل کو گھیرے میں لے لے گی اور احتیاطی تدابیر کی طرف لوگوں کی توجہ بھی مبذول ہوگئی لیکن مریض کو منگلورو میں زیر علاج ہونے کی خبریں سامنے آنے کے بعد لوگوں نے  اتنی سنجیدگی سے نہیں لیا جس طرح لینے کی ضرورت تھی اور یوں احتیاطی تدابیر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا۔ 
کچھ ہی دنوں کے بعد بھٹکل سے حیران کن خبر سامنے آگئی۔ دوافراد میں کورونا کی تصدیق کے ساتھ کچھ علاقوں کو سیل کردیا گیا ہے اور شہر بھر میں پولیس کا سخت بندوبست کیا گیا۔ جگہ جگہ پولیس کی جانب سے گاڑیوں کو روکا جانے لگا اور کئی مرتبہ پولیس کو لاٹھی چارج بھی کرنی پڑی۔ اب تو بیماری شہر میں پہنچ گئی تھی اور مزید معاملات سامنے آنے کے امکانات بڑھ گئے تھے۔ جن دو افراد میں کورونا کی تصدیق ہوگئی تھی ان کے گھروالوں کو کورنٹائن کیا گیا ہے اور ان کے سمپل حاصل ہوگئے اور کچھ ہی دنوں میں ان میں سے کئی ایک افراد بھی کورونا سے متأثر پائے گئے اورمزید افراد کو کورنٹائن کئے جانے میں شدت اختیار کی گئی، مجلس اصلاح وتنظیم نے انتظامیہ کا ہر ممکن تعاون دینے اور کورنٹائن کئے ہوئے افراد کو جملہ سہولیات مہیا کرائی اور کورونا سے لڑنے کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے اپنے اپنے گھروں ہی میں رہنے پر زور دیا جانے لگا۔  
کاروار میں متأثرہ افراد کے علاج ومعالجہ کے لئے انتظامات کئے گئے اور روز خوش کن خبریں اہلیانِ بھٹکل کو موصول ہونے لگی۔ پہلے منگلور میں زیر علاج نوجوان کی صحت مند ہونے کی خبر سے خوشی کی لہر دوڑ گئی اور سوشیل میڈیا پر خوب چرچا ہونے لگا۔ اس کے بعد یکے بعد دیگر مریضوں کے صحتیاب ہونے کی خبر یں موصول ہونے لگیں اور یوں لوگ آہستہ آہستہ احتیاط کا دامن بھی ہاتھ سے چھوڑنے لگے۔ باوجود اس کے انہیں معلوم تھا کہ اس بیماری کا سب سے بڑا علاج احتیاطی تدابیر کو اپنا نا ہے لیکن لوگوں نے اسے پسِ پشت ڈال دیا۔ سڑکوں پر گلیوں میں بے خوف نکلنے والے افراد کو دیکھتے ہوئے بعض افراد نے خیال ظاہر کیا کہ کورونا کے مریض کورنٹائن میں ہیں اور یوں لوگوں کی آمدورفت اور کورونا کے تئیں بے احتیاطی مناسب نہیں ہیں لیکن وہ بات صرف خیال کی حد تک محدود رہی اور کسی نے بھی اسے سنجیدگی سے نہیں لیااور تو اور ضلع انتظامیہ کی جانب سے احتیاطی تدابیر کے تحت بھٹکل کو کنٹمینٹ زون قراد دئیے جانے کو لے کر بھی کافی چرچا ہوا۔ 

کنٹمینٹ زون ہے کیا؟ 
جب کسی علاقہ میں کورونا کا مثبت معاملہ سامنے آتا ہے تو انتظامیہ اس علاقہ کو کنٹمینٹ زون قرادیتی ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس علاقہ کو پولیس پوری سیل کرد یتی ہے اور کسی کو بھی باہر آنے نہیں دیا جاتا اور نہ ہی کسی دوسرے باہری شخص کو اس میں داخل ہونے کی اجازت ملتی ہے۔ پولیس کا سخت پہرہ ہوتا ہے اور وہ حالات پر گہری نظر رکھتی ہے۔لوگوں کو گھروں ہی رہنے کی اپیل کی جاتی ہے اور ضروری سامان جیسے راشن اور دوائیں پولیس اور منتخب افراد کی جانب سے مہیا کرائی جاتی ہے۔ میڈیکل ایمرجنسی کے لئے سہولیات مہیا ہوتی ہیں۔  

ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ 
ایسے حالات میں جب پورے علاقہ کو سیل کردیا گیا ہو اور کسی بھی طرح کی آمدورفت پر پابندی عائد کردی گئی ہو ہمیں انتظامیہ کا بھرپور ساتھ دینا چاہیے۔ کسی بھی طرح کی غفلت ہمیں کسی بڑی مصیبت تک لے جاسکتی ہے۔ عوام کی صحت کے پیشِ نظر پولیس کا بندوبست کیا جاتا ہے تاکہ کسی طرح کی غفلت نہ برتی جائے۔ کیونکہ اس بیماری کے تعلق سے کئی ایک تحریریں ہم سب کی نظر سے گذری ہیں اور ماہرین کا بھی ماننا ہے کہ یہ بیماری متعدی ہے اور بے احتیاطی سے تیزی کے ساتھ پھیل جاتی ہے جس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔  انہیں باتوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مسجدوں میں باجماعت نماز ادا کرنے پر زیادہ تعداد کو جمع ہونے سے روکا جارہا ہے۔ ہمیں سب سے پہلے بیماری کے اثرات پائے جانے پر فوری طور پر ٹیسٹ کرلینا چاہیے۔ ٹیسٹ نہ کرنے کے نتائج کس حد تک سنگین ہوسکتے ہیں اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ ایک فرد کی غلطی سے پورا گھرانہ بلکہ پورا محلہ اور شہر بھی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس بیماری سے بچنے کے لئے جن احتیاطی تدابیر کو ہیشہ اختیار کرنے کی ہمیں نصیحت کی جارہی ہے انہیں بھی مدنظر رکھیں اور کسی صورت بھی احتیاط کا دامن نہ چھوڑیں، دوسری طرف انتظامیہ کو بھی لوگوں کی ضروریات کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ وہ صحیح طرح سے لوگوں کی ضرورتیں پوری لرلیں تو عوام بھی ان کا بھرپور ساتھ دینے کے لئے تیار ہے اور یوں عوام اور انتظامیہ مل کر اس کورونا سے بھٹکل کو بچاسکتے ہیں۔ 

Share this post

Loading...