ہوناور 25؍جنوری2024(فکروخبرنیوز) جماعت المسلمین جامع مسجد خضر کاسرگوڈ ٹونکا کی جانب سے کل بروز جمعرات سالانہ پروگرام منعقد کیا گیا جس میں مدرسہ عربیہ انجمن اصلاح المسلمین ٹونکا اور شبینہ مکتب کے طلبہ وطالبات نے اپنا بہترین پروگرام پیش کیا۔ کسی نے قرأت تو کسی نے نعت اور نظم گنگنائی ، کسی نے تقریر کے ذریعہ معاشرتی مسائل کو اٹھایا اور اس کی طرف حاضرین کی توجہ مبذول کرائی تو طلبہ وطالبات کے علیحدہ علیحدہ گروپ نے نظموں اور ترانوں میں بہترین انداز میں ایکشن کیا۔ حاضرین اور حاضرات پروگرام سے خوب محظوظ ہوئیں۔ ہر کوئی پروگرام کی کامیابی پر شاداں وفرحاں تھا اور اس پروگرام کے لیے کی جانے والی کوششوں پر اساتذہ وذمہ دارکا احسان مند تھا اور ان کے اساتذہ کو مبارکباد پیش کررہا تھا۔ پروگرام عین شباب پر تھا کہ ناظمِ جلسہ نے ٹونکا کے پہلے حافظ محمد ایمن ابن محمد اسلم باپو صاحب کو اسٹیج پر مدعو کیا، یہ مدرسہ عربیہ انجمن اصلاح المسلمین ٹونکا کے پہلے اور اپنے علاقے کے بھی پہلے حافظِ قرآن ہیں جنہوں نے اپنے استاد مولانا حافظ محمد سلمان بنگالی ندوی کے پاس اپنا حفظ مکمل کیا۔ حفظ کی تکمیل جمعیت الحفاظ بھٹکل کے صدر مولانا نعمت اللہ ندوی نے کیا۔
مہتمم جامعہ اسلامیہ بھٹکل مولانا مقبول احمد ندوی نے کہا کہ جماعت اور مدرسہ کی جانب سے منعقد ہونے والے پروگرام میں آپ کی شرکت دین اور شریعت سے محبت کی دلیل ہے۔ دین کی محبت نے آپ کو اس پروگرام میں شرکت پر آمادہ کیا اور اس کے لیے آپ پورے طور پر فارغ ہوکر آئے لہذا ہماری ذمہ داری ہے کہ بچوں نے مختلف پروگرامات کے ذریعہ جو پیغامات دیئے اس کو اپنے عملی زندگی میں لانا ہے۔ مولانا نے کہا کہ سب سے پہلے ہمیں اپنے عقیدے کو درست کرنے کی ضرورت ہے اور جس طرح ہمیں اپنے والدین کے توسط سے ہمیں دین ملا ہے اپنی نسل کو بھی ایمان پر باقی رکھنے کے لیے کوشش کرنی ہے۔
بانی وجنرل سکریٹری مولانا محمد الیاس ندوی نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ ٹونکا کا تاریخی پروگرام ہے جس میں ٹونکا کے پہلے حافظِ قرآن کا اعزاز کیا جارہا ہے۔ بھٹکل (ہنور) سمیت اس کے آس پاس کے علاقوں نے بھی وہ دور بھی دیکھا جب یہاں ابن بطوطہ کے سفر کے دوران حفظِ قرآن کے 23 مدرسے تھے اور اس کے گھر کا ہر مرد اور عورت حافظہ قرآن تھیں ، اس کے بعد وہ دور بھی آیا جب تراویح سنانے کے لیے حفاظ دوسرے شہروں سے آیا کرتے تھے اور وہ دور بھی آیا جب ایک ایک مسجد میں پانچ پانچ چھ چھ حافظ تراویح سنارہے ہیں اور ہر چوتھے گھر میں خواتین بھی تراویح میں قرآن پاک سنا رہی ہیں۔ مولانا نے حفظِ قرآن پر ملنے والے انعامات کی تفصیلات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آخرت میں حافظِ قرآن کے والد کے علاوہ کسی اور کے والد کا اعزاز نہیں کیا جائے گا اور اس کے سے بڑھ کر کیا فضیلت ہوگی کہ اس کی سفارش اس کے جہنمی رشتہ داروں کے سلسلہ میں قبول کی جائے گی اور اس کی سفارش پر انہیں جنت میں ٹھکانہ ملے گا۔ یہ سوچنے کی بات ہے کہ جس کی سفارش پر جہنمیوں کو جنت میں ٹھکانہ ملے گا تو جنت میں اس کا ٹھکانہ کیا ہوگا۔ مولانا نے کہا کہ اس علاقہ کے پہلے حافظِ قرآن بننے والے ان کے والدین کے ساتھ ساتھ اس کے استاد مولانا حافظ سلمان ندوی اور پورے علاقہ کو وہ خوشی محسوس ہورہی ہے جس کا ہم تصور نہیں کرسکتے۔
امام وخطیب جامع مسجد بھٹکل مولانا عبدالعلیم ندوی نے کہا کہ آج کفر اتنی طاقت سے اس وجہ سے آگے بڑھ رہا ہے کہ اس کے سامنے ہم اپنے ایمان کو پوری قوت کے ساتھ پیش نہیں کررہے ہیں۔ آج اس بات کی ضرورت ہے کہ مکاتب اور مدارس کا نظام مضبوط کیا جائے جس کے ذریعہ ہمارے نسلوں کی ایمان کی حفاظت ہو ، اسی طرح اپنے گھروں میں بچوں پر محنت کی جائے اور ان کے ایمان کو بنانے کی فکر کی جائے اور اپنی بستی میں علماء اور دینداروں کو تیار کرنے کی کوشش کی جائے۔
مہتمم مدرسہ عربیہ تعلیم القرآن تینگن گنڈی مولانا محمد سعود ندوی نے حافظِ قرآن اور اس کے والدین سمیت اس کے استاد کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ حفظِ قرآن کی مناسبت سے اس جلسہ کی رونق دوبالا ہوگئی ، انہوں نے حاضرین کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ اب جب حافظِ قرآن بننے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے تو کوشش اس بات کی کرنی ہے کہ ہر گھر میں ایک حافظِ قرآن ہو اور اس کے لیے ہمیں فکر اور کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔
صدرِ جلسہ مولانا نعمت اللہ عسکری ندوی نے کہا کہ ہمیں سب سے بہتر مذہب اسلام سے اللہ تعالیٰ نے نوازا ہے جس کو باقی رکھنا اور اس کو بچا کر لے جانا ہماری زندگی کا بنیادی مقصد ہونا چاہیے۔ مولانا نے کہا کہ ہمیں پروگرام میں شریعت کے دائرہ میں رہ کر کرنا چاہیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ پروگرام کی وجہ سے ہماری پکڑ ہوجائے۔ مولانا نے کہا کہ آج کا پروگرام دیکھ کر مجھے بڑی خوشی ہورہی ہے کہ طلبہ وطالبات نے بڑا ہی بہترین پروگرام پیش کیا۔ مولانا نے مزید کہا کہ آج کل کے حالات کو دیکھر کر ہمیں رونا آرہا ہے کہ حال ہی میں ایک لاکھ سے زائد بچیاں دینِ اسلام سے مرتد ہوگئیں۔ لہذا اپنے بچیوں کی فکر کرنا اور اس کی نگرانی کرنا اور اس کے ایمان کی فکر کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔
صدرِ جلسہ کی دعا پر یہ جلسہ اپنے اختتام کو پہنچا۔
Share this post
