اولادمیں اس کی بیٹی عطیہ بتول سب سے بڑی تھی جس نے دسویں یعنی میٹرک میں اول نمبرسے کامیاب ہونے کے باوجودکالج میں طلباء وطالبات کی مخلوط تعلیم کی وجہ سے داخلہ سے انکارکردیاتھااوراپنے شہرکے لڑکیوں کے ایک دینی مدرسہ میں تین سالہ عا لمیت کے کورس میں داخلہ لیاتھا،اپنی تمام سہیلیوں اور محلہ وخاندان میں قدرت کی طرف سے عطاکردہ غیرمعمولی حسن وجمال کے علاوہ حیاء وعفت اوراپنے اخلاق کی وجہ سے وہ سب کی منظورنظرتھی، ہرایک کی خواہش تھی کہ وہ بہوبن کران کے گھرکی زینت بنے، عا لمیت کے دوسرے سال اعزاز نے ایک دیندارپڑھے لکھے اپنے قریبی عزیزسے اس کارشتہ طے کردیاتھااور عا لمیت کے تیسرے سال امتحان کے بعدشادی بھی طے کردی تھی، دن تیزی سے گزررہے تھے، شادی کی تاریخیں قریب آرہی تھیں، اعزازبھی اپنی پہلی ولاڈلی بیٹی کی شادی کے دن گن رہاتھا، پورے گھرمیں بھی اس کے لیے ہرطرح کی تیاریاں شروع ہوچکی تھیں، گھرکے رنگ روغن کے علاوہ اس نے زیورات وکپڑوں کی خریداری بھی مکمل کرلی تھی، اچانک ایک دن بتول کی طبیعت بگڑ گئی اورپیٹ میں ناقابل برداشت دردکی وجہ سے اس کی حالت غیرہوگئی، مسلسل قئ نے اس کوبے حال کردیا، فیملی ڈاکٹرکودکھایا گیا، اس پربھی جب افاقہ نہیں ہواتوقریب ہی واقع شہرکے مشہورہسپتال میں اس کوداخل کیاگیا، وہاں بھی جب اس کوافاقہ نہیں ہواتوڈاکٹرنے اعزازکومشورہ دیاکہ بتول کے پیٹ کااسکین کیاجائے تاکہ صحیح صورت حال سامنے آسکے، لیبارٹری سے پیشاب وخون کی رپورٹ کے ساتھ جب اسکین رپورٹ بھی موصول ہوئی تواعزازکے ہاتھوں کے طوطے اڑگئے اورپیروں تلے اس کی زمین کھسک گئی جب ڈاکٹرکی زبان سے اس نے یہ سناکہ بتول کوکینسرکاعارضہ لاحق ہوگیاہے، ڈاکٹروں نے رائے دی کہ فوراً کسی کینسرکے ماہرسے رجوع کریں اوراس کے علاج میں تاخیرنہ کریں، بتول کوبھی اپنی رپورٹ کاشدت سے انتظارتھا، افسردگی ومایوسی کی حالت میں ابوکے کمرہ میں داخل ہونے کے بعداس کویہ اندازہ لگانے میں دیرنہیں لگی کہ رپورٹ حوصلہ افزانہیں ہے، بتول کے اصرارکے باوجوداعزازصرف یہ کہنے پراکتفا کرتارہاکہ بیٹی :۔ کوئی بات نہیں ہے، گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، یہاں سے قریب کالی کٹ میں پیٹ کی بیماریوں کاماہرڈاکٹرہے، جلداورمکمل علاج کے لیے یہاں کے ڈاکٹرنے ہمیں وہاں جانے کامشورہ دیاہے، بتول نے کہاکہ ابوجب تک آپ سچ سچ نہیں بتائیں گے میں نہ کوئی گولی کھاوں گی اورنہ دوا، ہمارارب جومالک ہے بیماری کاوہی مالک ہے صحت کابھی، کوئی منفی بات ہوگی توہم اسی سے رجوع کریں گے اوراسی سے پھرایک باردست بدعاہوں گے، آپ کیوں گھبراتے ہیں، یہ سن کراعزازکوبتانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا،تفصیل سنناتھا کہ بتول کی زبان سے بے ساختہ یہ پراعتمادجملہ نکلاکہ ابو:۔مجھے کوئی اوربیماری توہوسکتی ہے لیکن کینسرکامرض مجھے لاحق نہیں ہوسکتا، اعزازحیرت میں پڑگیا، اس نے پوچھا: بیٹی ! کیابات ہے، ڈاکٹرہرقسم کے ٹسٹ کے بعدایک نتیجے پرپہونچے ہیں اورتم اس سے انکارکررہی ہو، بتول نے کہاکہ ابو:۔بات دراصل یہ ہے کہ میں نے ایک حدیث پڑھی تھی ، اﷲکے رسول نے فرمایاکہ کوئی شخص کسی کوکسی آزمائش وبیماری میں مبتلادیکھے اوراس مصیبت یابیماری میں اپنے مبتلانہ ہونے پرپیشگی اﷲکاشکراداکرے تویہ بیماری اس کوکبھی لاحق ہی نہیں ہوسکتی، چاہے کچھ بھی ہوجائے، ابو:۔جب سے میں نے آنکھ کھولی ہے اورہوش سنبھالاہے تومیں نے سناہے کہ دنیاکی سب سے خطرناک اورموذی بیماری کینسرکی ہے، اس میں لوگ بہت ہی کم بچ پاتے ہیں، اس میں مبتلامریضوں کی تکلیف اس قدردردناک ہوتی ہے کہ کسی سے دیکھی نہیں جاسکتی، اس حدیث کے سننے کے بعدجب بھی میں نے کسی کینسرکے مریض کودیکھاہے یاکسی کے بارے میں سناہے کہ اس کویہ بیماری لاحق ہوگئی ہے تومیں نے ہمیشہ ان لوگوں کی صحت کے لیے نام لے کردعاکی ہے اوراﷲکابارباراس پر شکر اداکیاہے کہ اے رحیم آقا:۔صرف تیرااحسان وشکر ہے کہ تونے مجھے اس آزمائش وبیماری سے محفوظ رکھاہے جس میں فلاں کوتو نے مبتلا کیاہے اور اپنی مخلوق میں مجھے بہت ساروں پر فضیلت دی ہے، ابو:۔وہ پوری دعایوں ہے :
’’ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ عَافَانِیْ مِمَّاابْتَلاَکَ بِہٖ وَفَضَّلَنِیْ عَلَی کَثِیْرٍ مِمَّنْ خَلَقََ تَفْضِیْلاً ‘‘
ابو ! کیاوہ اﷲجوہمیں روزاورہمیشہ ہرطرح کی مصیبت سے بچاتاہے اوربیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے اس سے یہ امیدکی جاسکتی ہے کہ وہ مانگنے پراورپیشگی شکراداکرنے پران بیماریوں سے محفوظ نہیں رکھے گا،ابو :۔ مجھے کوئی دوسری بیماری لاحق ہوسکتی ہے لیکن کم ازکم کینسرکی بیماری توہوہی نہیں سکتی، پھربھی آپ کی مرضی ہے، آپ اطمینان قلب کے لیے کسی اورماہرڈاکٹرسے رجوع کریں یاپھراس ڈاکٹرکے کہنے پرمیراعلاج شروع کردیں۔
اعزازبتول کی یہ باتیں سن کرمسرت آمیزحیرت میں مبتلا ہوگیا ، اس کوامید کی ایک کرن نظرآئی، اس نے جب اپنے بڑے بھائی سے اس سلسلہ میں مشورہ کیااور ڈاکٹروبتول کی متضادباتیں اس کوبتائیں تواس نے کہاکہ اعزاز:۔کیوں نہ ہم ایک بار ملک کے سب سے بڑے کینسرعلاج کے مرکزٹاٹاریسرچ انسٹی ٹیوٹ برائے کینسربمبئ سے رجوع کریں جہاں ہرطرح کی یورپ وامریکہ سے درآمدکردہ جدید مشینوں سے بہت ہی باریک بینی سے کینسرکے ٹسٹ ہوتے ہیں، وہاں کی جانچ اگرچہ بہت مہنگی ہوتی ہے لیکن اﷲنے تمہیں اتنے مالی وسائل واسباب دیے ہیں کہ تمہارے لیے ان اخراجات کوبرداشت کرناکوئی مسئلہ نہیں ہے چنانچہ دوسرے ہی دن اعزازبتول کوہوائی جہازسے بمبئ لے آیااورہسپتال میں بھرتی کردیا، وہاں کینسرکے ماہر ڈاکٹروں کاکہناتھاکہ اگرآپ اطمینان بخش اورتفصیلی رپورٹ چاہتے ہیں تودوتین دن آپ کوانتظارکرناپڑے گااوراس کے اخراجات بھی کسی عام آپریشن سے کم نہیں ہوں گے، اعزازنے جب ہاں کہاتوبتول کے متعددٹسٹ شروع ہوئے ، ادہراعزازبرابرخدا تعالی سے لولگائے ہوئے تھااورگھرمیں بھی سب لوگ اس بڑے ہسپتال کی رپورٹ کے منتظرتھے، چوتھے دن ڈاکٹر نے پیغام بھیجاکہ اعزازان کے آفس میںآکرملاقات کرے، ، اعزازکادل دھڑکنے لگا، اس نے دل ہی دل میں اﷲ سے کہاکہ اے اﷲ جب تمام سہارے ختم ہوجاتے ہیں توصرف تیراہی سہاراباقی رہتا ہے، میری نہیں اے اﷲکم ازکم تواپنی اس پراعتمادبندی کے تجھ پریقین وبھروسہ کی لاج رکھ کرخوش کن خبرسنادے، ڈاکٹرکے کیبن میں داخل ہوتے وقت جب ڈاکٹرپراعزاز کی نظرپڑی توامیدکی پہلی کرن اس طرح نظرآئی کہ ڈاکٹرمسکرارہاتھا اوردورسے ہی مبارک مبارک کہہ رہاتھا، اس نے کہاکہ اعزازصاحب !آپ کی بچی کی رپورٹ توہمارے طبی اصولوں کے مطابق ہے لیکن مجھے حیرت ہے کہ اس کانتیجہ اس کے مطابق نہیں ہے، اعزازنے کہا ڈاکٹرصاحب میںآپ کی بات سمجھ نہیں سکا، ڈاکٹرنے کہااس کی تفصیل یوں ہے کہ بچی میں کینسرپیداہونے کے تمام اسباب موجودہیں لیکن اس کے باوجودکینسرکاعارضہ لاحق نہیں ہواہے، لگتاہے اوپروالا آپ پربڑامہربان ہے، اس طرح کے کیس ہمارے پاس ہزاروں مریضوں میں بمشکل ایک دوہوتے ہیں، ہم نے آپ سے پوچھے بغیراس حیرت انگیزپورٹ کے بعدمزیدکئی طرح کے اوربھی ٹیسٹ کروائے لیکن رپورٹ ہمیشہ مثبت ہی رہی، اعزازکی آنکھوں سے یہ سن کربے اختیار خوشی کے آنسونکل پڑے ، اس نے دل ہی دل میں الحمدﷲکہااوراﷲکاشکراداکیاپھر ڈاکٹر کاشکریہ اداکیا، ڈاکٹرنے کہاکہ آپ اوپر والے کا شکریہ اداکیجئے ، یہ صرف اسی کی مہربانی ہے، اعزازنے واپس آکرجب بتول کوبھی یہ خوش کن رپورٹ سنائی تواس نے کسی حیرت کااظہارنہیں کیا، صرف اتناکہاکہ ابو:۔اس رپورٹ نے اﷲپرآپ کے ایمان کومضبوط کیاہے ورنہ حدیث کی اس دعاکی برکت سے کینسرسے حفاظت کایقین تومجھے پہلے ہی سے تھا، اعزازنے اسی وقت فون کے ذریعہ گھروالوں کوبھی خوش خبری سنائی اوروہاں بھی افسردگی ومایوسی کی فضامیں اچانک خوشی ومسرت کاماحول پیداہوگیا گویاپورے گھرمیں عیدکاسماں تھااوربتول کی شادی کاپیشگی جشن بھی، اسی سال بتول کی شادی بھی ہوئی اوراگلے سال ہی وہ ایک بچہ کی ماں بھی بن گئی، اورالحمدﷲاب تک وہ معمول کے مطابق نارمل زندگی ہی گذاررہی ہے، اس خطرناک اورموذی مرض سے حفاظت پروہ اب بھی روزاﷲکاشکراداکرنانہیں بھولتی ہے۔
Share this post
