حافظؔ کرناٹکی کے حمدیہ مجموعہ’’اللہ جمیل‘‘ کابھٹکل میں اجرا

دفتر فکروخبر سمیت مولانا ابوالحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی،علی پبلک اسکول اور پھول دفتر کا کیا دورہ،صحافت اور اردو ادب کی خدمات کی سراہنا کی

بھٹکل 27؍ نومبر 2018(فکروخبر /پریس ریلیز) کل بتاریخ ۲۶؍نومبر۲۰۱۸ء کو حافظؔ کرناٹکی کی بھٹکل آمد کے موقع سے ان کی تازہ ترین خوب سیرت کتاب’’اللہ جمیل‘‘ کے اجراکا اہتمام کیا گیا بھٹکل یوں تو ریاست کرناٹک کا ایک چھوٹا سا شہر ہے، مگر اپنے آپ میں ایک علمی ریاست کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور اس ریاست میں کئی ایسی شخصیتیں بستی ہیں جو اپنی ذات میں ایک چھوٹی موٹی کائنات کی طرح ہیں۔ مولانا الیاس ندوی کی شخصیت ان میں کافی نمایاں ہے۔
حافظؔ کرناٹکی سب سے پہلے جامعہ اسلامیہ پہونچے، یہیں مولانامحمد الیاس ندوی سمیت جامعہ اسلامیہ کے صوفی صفت مہتمم مولانا مقبول صاحب ندوی اور دیگر بزرگ و تازہ کار اساتذہ سے ملاقات ہوئی۔ جامعہ اسلامیہ ہندوستان کاغالباً واحد ایسا مدرسہ ہے جو مقامی طلبا کی وجہ سے آباد و شاداب ہے اور جہاں کے تمام اساتذہ بھی مقامی ہیں۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں دینی تعلیم کاماحول کس قدر پاکیزہ اور دل نشین ہے اور یہ بھی کہ لوگ خوشحال ہونے کے باوجود اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے میں کتنی دلچسپی لیتے ہیں۔ اگر اسی طرح کی خوشگوار دینی فضا ہر شہر میں قائم ہو جائے تو انشاء اللہ دین اسلام ہر طرح کے طوفانوں سے محفوظ ہوجائے گا۔
جامعہ اسلامیہ بھٹکل کی خوب صورت مسجد میں ظہرکی نماز کے بعد علماء کرام اور طلبا کے درمیان حافظؔ کرناٹکی کے حمدیہ مجموعہ’’اللہ جمیل‘‘ کا اجرابھٹکل کے علمی و ادبی شخصیات مولانامحمد الیاس صاحب ندوی، مہتمم جامعہ مولانا مقبول صاحب ندوی، نائب ناظم جامعہ مولانا طلحہ صاحب ندوی، صدر جامعہ مولانا اقبال ملاّ ندوی،نائبقاضئ مولانا عبدالرب صاحب ندوی اور مولانا عظیم صاحب ندوی اور مولانا عبدالعلیم صاحب قاسمی مدیر نقش نوائط کے ہاتھوں ہوا۔ اس موقع سے خطاب کرتے ہوئے حافظؔ کرناٹکی نے بھٹکل اور اہل بھٹکل کے علم دوست کردار کا اعتراف کرتے ہوئے شاعری کی باریکیوں اور اس کے اوزان سے طلبا کو واقف کراتے ہوئے بہت سارے اشعار سنائے۔ اور برجستہ رباعیاں بھی سنائیں۔ اس کے بعد انہوں نے مولانا الیاس صاحب ندوی کی تعلیمی اداروں کا دورہ کیا۔ اور صرف سات سال میں اسلامی جدید ترین اسکولی تعلیم کی کامیابی اور فتحیابی کی زندہ جاوید تصاویر کا دیدار کیا۔ علی پبلک اسکول کی خوب صورت عمارتیں، ہاسٹل کا نظام، زیرتعمیر عمارت کا منظر، لائبریری، کلاس روم، خارجی ماحول، اندرونی نظام، جدید تر عصری تعلیم میں اسلامی شعار کا انجذاب بچیوں کی نسوانی وقار پر دہ داری اور اسلامی شعار کے مطابق تعلیم و تربیت یہ سب کچھ اتنا خوب صورت تھا گو یا ایک سچے مسلمان کے خواب نے حقیقت کا روپ اختیار کرلیاہو۔ پھر علی پبلک اسکول جونیر کالج اور ڈگری کالج سے متعلق مولانا الیاس صاحب ندوی کے عزائم لڑکوں اور لڑکیوں کے علےٰحدہ احاطے کا منصوبہ، اعلیٰ ترین ہاسٹل کا سچ ہوتا خواب، سب کچھ جان کر سمجھ کر دل اسلامی تعلیم کی عصر ی تعلیم کے ساتھ اتحاد کے روشن امکانات سے لبریز ہوگیا۔ اور بے اختیار مولانا محمد الیاس ندوی کے لیے دل کا دامن وسیع تر ہوتا چلا گیا جہاں ان کے لیے دعاؤں اور خیراندیشیوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔
پھر حافظؔ کرناٹکی مولانا ابوالحسن علی ندوی اسلامی اکیڈمی تشریف لے گئے، یہ بھی مولانا محمد الیاس ندوی صاحب کی محنت کا وہ ثمر ہے جس کے فیض سے علی پبلک اسکول ہی کی طرح ملک وبیرون ملک میں کروڑوں لوگ فیضیاب ہو رہے ہیں۔ یہاں مولانا نے قرآن میوزیم بھی دکھایا جہاں قرآن کے کئی نایاب نسخے محفوظ ہیں۔
حافظؔ کرناٹکی نے مولانا محمد الیاس ندوی کی خدمات کا دل سے اعتراف کیا اور کہا کہ بھٹکل میں جس طرح دینی تعلیم اور اردو زبان کے فروغ کے لیے کام ہو رہا ہے اس کی مثال ہندوستان کا کوئی علاقہ پیش نہیں کرسکتا ہے۔ ظہرانے کا اہتمام مولانا محمد الیاس ندوی صاحب کے یہاں تھا، وہاں سے فراغت کے بعد حافظؔ کرناٹکی ماہنامہ ’’پھول ‘‘کے مدیر کی درخواست پر ’’پھول‘‘ کے دفتر بھی تشریف لے گئے۔ یہاں ان کی آمد کی خبر سن کر کئی طلبا جمع ہو گئے، جن کے درمیان دیر تک حافظؔ کرناٹکی ادب اطفال، فن شعر گوئی اور بچوں کے ذوق و شوق اور موڈ و مزاج کی باتیں کرتے رہے۔ اور بچوں کو شاعری کرنے کی ترکیب سکھاتے رہے۔ بچے دیر تک دلچسپی سے ان کی باتیں سنتے رہے۔ اور ان کے سرمیں سر ملا کر مصرعے کہنے کی کوشش بھی کرتے رہے۔ شام میں حافظؔ کرناٹکی ’’فکر وخبر‘‘ کے دفتر اس کے مدیر کے اصرار پر تشریف لے گئے۔ جیسا کہ عرض کیا کہ بھٹکل بظاہر ایک چھوٹا اور قدیم شہر ہے مگر یہاں علمی اور ادبی اداروں اور صحافت کے مراکز اور اسکول و کالج کا جال بچھا ہوا ہے۔ دین داری، اور اسلامی اخلاق و شعار یہاں کا خاص وطیرہ ہے۔ اس لیے بھٹکل کو ایک دو دن میں ٹھیک سے دیکھ پانا ممکن ہی نہیں ہے۔’’ فکر و خبر‘‘ کے دفتر میں حافظؔ کرناٹکی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ؛آج معلومات کے جس سمندر اور خبروں کے جس بحر بیکراں میں ہم غوطہ زن ہیں اس میں صحیح اور درست خبر تک رسائی آسان نہیں ہے۔ اور بعض متعصب میڈیا کا سامنا کرنا تو اور بھی مشکل کا م ہے۔ مگر اللہ کا کرم ہے کہ ’’فکر و خبر‘‘ جیسے کئی سوشل میڈیا سرگرم کار ہیں۔اور سچ پوچھئے تو انہیں لوگوں اور میڈیا کی وجہ سے حقائق کا چہرہ مسخ ہونے سے محفوظ ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر اس طرح کے سوشل میڈیا علماء کرام کے زیر سایہ اسی طرح حقیقت سے لوگوں کو روشناس کرتے رہے تو انشاء اللہ ہندوستان سے شکوک و شبہات کا ماحول ختم ہوجائے گا۔ اور لوگ حقیقت کے آئینے میں اپنے آپ کو دیکھنے کے قابل بن جائیں گے۔

Share this post

Loading...