عدالت نے اس معاملے کی سماعت کے دوران کیرل ہائی کورٹ کے ذریعہ ایک ہندو دوشیزہ اورمسلم نوجوان کے نکاح کوکالعدم کرنے کے فیصلے پر سوالات اٹھائے۔ عدالت عظمی نے سوال کیا کہ کیرل ہائی کورٹ نے دفعہ 226 کے تحت حاصل اختیارات کا استعمال کرکے ہندو لڑکی اکھیلا اشوکن(اب ہادیہ)اور مسلم نوجوان شیفین کے درمیان ہوئی شادی کو کالعدم کیسے کردیا۔ بنچ نے کہا کہ کوئی باپ اپنی چوبیس سال کی بیٹی کو اس کی نجی زندگی کے سلسلے میں دباو نہیں ڈال سکتا ۔ اکھیلا نے مذہب تبدیل کرکے اپنا نام ہادیہ رکھ لیا تھا اور شیفین سے گذشتہ سال دسمبر میں نکاح کرلیا تھا۔ اکھیلا کے والد نے ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا جس نے نکاح کو کالعدم قرار دے دیا۔ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو شیفین نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔عدالت نے اس معاملے کی جانچ این آئی کو سونپ دی تھی۔ جس کی نگرانی کا ذمہ سپریم کورٹ کے سابق جسٹس آر وی رویندرن کو سونپا گیا ہے۔
Share this post
