گلبرگہ سے گرفتار ۵ علماء کرام کو مقدمے سے ڈسچارج پر بحث مکمل،فیصلہ ۲۷مارچ تک محفوظ

دوسرا ثبوت پولیس کی جانب سے ایک ملزم کا اپنی بیوی کے سامنے اعتراف نامہ ہے ، یہ بھی پری ویلیج کمیونی کیشن کے تحت عدالت تسلیم نہیں کرتی ۔ کیونکہ عدالت میں بیوی کی گواہی شوہر کے لئے یا شوہر کی گواہی بیوی کے لئے ناقابلِ تسلیم ہے۔ اس کے علاوہ پولیس کی جانب سے عدالت میں پیش کردہ پوری چارج شیٹ میں ان ملزمین کے خلاف راست یا بالراست کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ اس وجہ سے یہ مقدمہ خود بخود عدالت میں منہ کے بل گرجانا چاہئے، مگر سرکاری وکیل اس مقدمے کو چلانے پر بضد تھے ۔
انہوں نے بتایا کہ انسانی بلی دینے کے الزام میں ۶ علماء کرام کو گرفتار کیا گیا تھااور انہیں ابتداء میں غیرقانونی طور پر حراست میں رکھا گیا تھا، اسی دوران پولیس کی تشدد سے ایک ملزم کی موت واقع ہوگئی تھی۔ اس کے بعد اس ڈر سے کہ بقیہ ملزمین کو اگررہا کردیا گیا تو پولیس حراست میں ہوئی موت کا راز فاش ہوجائے گا، پولیس نے ان تمام پر تعزیراتِ ہند کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کرتے ہوئے ان پر انسانی جان کی بلی دینے کا الزام عائد کردیا۔ لیکن جب یہ معاملہ عدالت پہونچا تو عدالت نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ پولیس کی جانب سے پیش کئے جانے والے ثبوت وشواہد ناکافی ہیں، ملزمین کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیدیا۔ اس کے بعد ہم نے تمام ملزمین کو مقدمے سے بری کرنے کی درخواست گلبرگہ سیشن عدالت میں داخل کی تھی ، جس پراستغاثہ اور دفاع کی جانب سے بحث مکمل ہوچکی ہے اورعدالت نے اپنا فیصلہ ۲۷مارچ تک کے لئے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے ۔ ہم نے انہیں بنیادوں پر عدالت میں ان ملزمین کو مقدمے سے ڈسچارج کرنے کی درخواست دی تھی ، جس پر بحث مکمل ہوچکی ہے۔ ہم نے قانونی دلائل اور ثبوت وشواہد کی بنیاد پر پولیس کی چارج شیٹ پر بحث کی ہے۔ ہمارے ساتھ اس مقدمے کی پیروی کرنے میں ایڈووکیٹ لیاقت فرید کا بھی ساتھ رہا ہے۔ 
واضح رہے کہ اگست ۲۰۱۴ میں گلبرگہ ودیگر مقامات سے پولیس نے ۶علماء کرام کو توہم پرستی مخالف قانون کے تحت گرفتارکیا تھا اور ان پرکسی دفینے کے لئے ایک بچی کی بلی دینے کا الزام عائد کیا تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ان گرفتار شدگان میں اس بچی کے والد بھی تھے جس کی بلی دی گئی تھی۔ ۲۱؍اگست۲۰۱۴ میں ایک بچی کا اغواء ہوا تھا جس کی گمشدگی کی رپورٹ اس کے والد نے اسی روزشہر کے فرحت آباد پولیس اسٹیشن میں درج کرادی تھی۔ اس واقعے کے ۵روز بعد یعنی ۲۶؍اگست کو اس بچی کی مسخ شدہ لاش اس کے ہی گھر کے عقب میں ملی تھی اور والد نے اس کی فوری رپورٹ پولیس میں درج کرادی تھی۔ اس کے بعد پولیس نے بجائے بچی کے اغواء کنندگان یا اسے قتل کرنے والوں کو گرفتار کرنے کے اپنے طور پر اسے بلی دینے کا معاملہ قرار دیتے ہوئے بچی کے والد سمیت گلبرگہ ودیگر مقامات کے ۶ علماء کرام کو گرفتار کرلیاتھا۔ ان گرفتار شدگان میں ۴ حفاظِ کرام، ایک مفتی اور ایک دیگر شہری تھے۔ ابتداء میں انہیں تفتیش کے نام پر غیرقانونی طور پر حراست میں لیا گیا جس کے دوران ان گرفتار شدگان پر اس قدر تشدد کیا گیا کہ ان میں سے ایک کی موت واقع ہوگئی تھی۔ اس کے پیروں میں کیلیں ٹھونک دی گئی تھیں اور بعد میں یہ کہتے ہوئے اس کی موت کو جائز قرار دینے کی کوش کی گئی کہ وہ پولیس حراست سے بھاگنے کی کوشش کررہا تھا۔اس حراستی موت کی تحقیق کے لئے بھی جمعیۃ علماء مہاراشٹر عدالت جانے کی تیاری کررہی ہے۔جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے صدر مولانا حافظ ندیم صدیقی نے کہا کہ پولیس نے اپنی ناکامی کو چھپانے اوراس پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ پورا ڈرامہ رچا ہے ۔ ہمارے وکلاء نے قانونی اور واقعاتی نکات پر اس معاملے کوکورٹ میں لے کر گئے جہاں اس کی کامیاب پیروی کی ۔ ہمیں اللہ کی ذات سے قوی امید ہے کہ وہ ہمیں کامیابی عطا فرمائے گا۔

Share this post

Loading...