فکروخبرکے سالانہ اجلاس میں کیا ہوا اور کس نے کیا کہا؟ (سلسلہ وار تفصیلات)

اس کا ثبوت بھی ہے کہ ویب سائٹ کا نام خبر وفکر نہیں رکھا بلکہ فکروخبر رکھا ہے اس کی ہر خبر کے ذریعہ سے دعوتی نقطۂ نظرسے ہر قاری کو سوچنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں ۔ مولانا موصوف نے کہا کہ ان کا سائٹ کھلتے ہی آپ کو عالمِ اسلام یا مسلمانانِ عالم کے سلسلہ میں خبریں نہیں ملتی ہیں بلکہ سب سے پہلے مسلمانوں کے سامنے درپیش مسائل کا تجزیہ ملتا ہے اس کے ذریعہ وہ صحافت کو ایک نیا موڑ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں یہی فکروخبر کی امتیازی شان ہے ۔ مولانا موصوف نے مولانا سید ہاشم ندوی ، مولانا انصار عزیز ندوی اور ان کے ساتھیوں کو مبارکباد پیش کی کہ وہ صحافتی میدان میں ملت کے سامنے پیغام پیش کرنے میں کامیاب ہیں۔

 فکروخبر اب محتاجِ تعارف نہیں رہا:  ایڈیٹر فکروخبر

مولانا موصوف سے پہلے فکروخبرکے ایڈیٹر مولانا انصار عزیز ندوی نے فکروخبر کے انگریزی ایڈیشن اور نیوز ویڈیو کلپ پر انگریزی زبان میں معلومات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ فکروخبر اب محتاجِ تعارف نہیں رہا، بس یوں سمجھئے کہ فکروخبر اپنا ایک سا ل کا کامیاب سفر آپ جیسے معزز و موقر ہمسفر وں کے ساتھ مکمل کرنے کے بعد ایک اور تحفہ آپ کے سامنے پیش کررہا ہے ، بلکہ اس جلسہ میں فکروخبر نے کچھ اور بھی چیزوں کو شمار کیا ہے۔
مزید کہا کہ فکروخبر انگریزی کا بھی وہی مقصد ہے جو آپ نے فکروخبر کے اُردو ایڈیشن میں سن چکے ہیں۔اس بات سے آپ بخوبی واقف ہیں کہ ہزاروں کی تعداد میں انگریزی ویب سائٹس ہونے کے باوجود صحیح فکرکو پیش کرنے والے ویب سائٹس خال خال ہی نظر آتے ہیں، اور اگر میں یوں کہوں کہ ہے ہی نہیں تو بھی شاید درست ہو، بعض اسلامی و دینی فکرکے ویب سائٹس ہونے کے باوجود اس کے ایڈیٹرس ’’کٹ اینڈ پیسٹ‘‘ پر اکتفا کرلیتے ہیں، اور صحیح اسلامی فکر کے ساتھ اپنی فکر کو پیش کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی،اور بعض ویب سائٹس بس قومی سطح کے آن لائن ایڈیشن کی خبریں شائع کرکے خانہ پری کررہے ہیں، جس سے صرف خبروں کے ارسال کا مقصد تو پورا ہوسکتا ہے مگر اسلامی صحافت کا نہیں۔ جب کہ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پرنٹ ایڈیشن میں کچھ ایسے اخبارات بھی ہیں جو صحیح فکر پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اسی وجہ سے فکروخبر نے اپنے مقامی زبان کنڑا سے پہلے انگریزی کو ترجیح دی اور اس لئے بھی کہ فکروخبر چونکہ قومی و عالمی طو ر پر اللہ کے فضل و کرم اور آپ حضرات کی دعا سے مقبول ہوچکاہے تو اب دنیا کے سامنے بین الاقوامی زبان میں اسلامی صحافت کی صحیح تصویر پیش کرنا ضروری ہے۔ 
انگریزی ایڈیشن میں بالکل سادگی کو اپنایا گیا ہے اُردو میں جتنے کالمس ہے اس میں تھوڑی سی کمی لائی ہے، اور گذرتے ایام کے ساتھ اس میں اضافہ کیا جاتا رہے گا۔جو ویڈیو نیو ز کا اجراء ہوا ہے اگر اس کو غور سے دیکھا جائے تو آپ کو اُردو نیوز چینل میں اور اس میں کوئی فرق نظر نہیں آئے گا۔ یہ ارادہ ہمارا پہلے ہی دن سے تھا، چونکہ فکروخبر کا قدیم دفتر اہم شاہراہ کے کنارے تھا، تو ایک پروفیشنل اور پوری کلیریٹی کے ساتھ جیسے آپ دیکھ رہے ہیں ، اس طرح کا ویڈیو پیش کرنا یہ ناممکن تھا،دوسری چیز ویڈیوآڈٹنگ اپنے اندر ایک الگ ہنر رکھتا ہے، عام طور پر یو ٹیوب میں جو ویڈیو پبلش کئے جاتے ہیں وہ تو بس ایک تصویر کشی کی اور اُنیس بیس کے ایڈیٹنگ کے ساتھ اپلوڈ کردیا۔ مگر یہاں آپ کے سامنے جو پیش کررہے ہیں، یہ فکروخبر کے پورے ایک سال کی محنت ہے، اس طرح کے پروفیشنل کو ٹی وی چینلوں میں لاکھوں روپئے مشاہرہ کے طور پر دئے جاتے ہیں، مگر الحمد للہ فکروخبر کے عملے نے خود اپنے کھوج سے ، اس کو سیکھا اور پھر محض اللہ کے فضل و کرم سے آج آپ کے سامنے پیش کردیا۔آغاز میں ہم شہر بھٹکل کی اہم مقامی خبروں کو ہفتے میں تین بار ویب سائٹ اور وھاٹس اپ کے ذریعہ دیں گے، اور گذرتے ایام کے ساتھ جب اس میں مزید مہارت حاصل کرلیں توروزانہ پیش کئے جانے کی کوشش کریں گے۔ 

(یہ سلسلہ چلتا رہے گا، آپ ہم سے جڑے رہیں)

 

Share this post

Loading...