دراصل یہ سوالات وہ تھے جو ایک ایک کرکے میر ے ذہن میں آتے جارہے تھے جب مولانا ہاشم ندوی صاحب مجھے یہاں کی ایک ایسی خوبصورت ، عالیشان مسجد کا نظارہ کروایا جس کی خوبصورتی کو بیان کرنے کے لیے میرے پاس نہ الفاظ ہیں اور نہ ذہن میں کوئی خاص خوبصورتی بیان کرنے کا خاکہ...
نماز اور ظہرانے سے فراغت کے بعد کچھ دیر سفر کی تھکان دور کرکے قریب عصر مولانا ہاشم ندویؔ صاحب نے اعلان کیا کہ بچوں کے ساتھ باہر کی سیر کر آتے ہیں، کہاں جانا ہے اس کا فیصلہ نہیں ہوا تھا، کار جب اہم شاہراہ پر نکل آئی تو مولانا کی دختر فاطمہ نے اچانک آوازیں نکالنے لگی کہ آج سفر کی دعا میں پلاؤں گی میں پلاؤں گی(پڑھاؤں)اور پھر یوں بیٹی فاطمہ کے دعا کے ساتھ ہمارے سفر کا آغاز ہوا، تھوڑی ہی دیر میں فیصلہ ہوا کہ مسجد زید چلا جائے ۔
یہ دبئی کے راستے جتنے کشادہ ہیں اُتنے ہی پیچیدہ بھی ہیں،بظاہر دیکھنے میں لگتا ہے کہ یہاں کی ڈرائیونگ بڑی آسان ہے ، جی ہاں آسان ہے مگر ٹرافک قوانین بڑے کڑے ہیں، ڈرائیونگ کا ساراانحصاریہاں ٹرافک اُصولوں پر منحصر ہے۔ اگر آپ نے رتی برابر بھی راستوں کو چننے میں خطا کی تو سمجھئے کہ آپ کو ایک بار پھر اُس سمت میں آنے کے لئے ایک سے دوگھنٹے ضائع کرنے پڑیں گے، اسی لئے مولاناراستے معلوم ہونے کے باوجود ایک بار پھر مولانا نعمان اکرمی ندویؔ سے فون پر رابطہ کرکے یادداشت کو پختہ کرلیا تاکہ خطا نہ ہوجائے ، اور پھر یوں کار اپنے منزل کی جانب بڑھنے لگی ،عصر کی نماز کی ادائیگی کا وقت بھی قریب تھا تو مولانا نے ایک پٹرول بنک کے قریب کار کو رکوایا۔
یہاں اس شہر میں مجھے یہ بات سب سے اچھی، دل کو چھولینے والی اور ایمان کو تازہ کرنے والی یہ ملی کہ یہاں کہ ہر پٹرول بنک کے ساتھ مر د و حضرات کے لئے حمام خانے ، اور مسجد کی سہولیات فراہم کئے ہوئے ہے ، شاید ہی کوئی پٹرول بنک ایسا ہو جہاں پر یہ نظام نہ ہو، مسافر نماز کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ کچھ دیر کے لیے اپنی سفری تھکان کو بھی دو ر کرسکتا ہے۔ نماز کی ادائیگی اور چائے کی چسکی لینے کے بعد ایک بار پھر کار شارع زید پر اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہوئی ۔
قریب تھا کہ ہم اپنے منزل تک پہنچتے مگر! جس بات کا خوف تھا وہی ہوا، کار میں بچوں کے ساتھ آپسی گفت و شنید کے بعد کب خطا ہوئی پتہ ہی نہ چلا جب کہ ہم اُس مسجد کے قریب تھے، اور دور سے مسجد کا شاندار منارہ بھی نظر آرہا تھا مگر جیسا کہ میں نے کہا راستوں کو منتخب کرنے کی غلطی ہوگئی ۔بالآخرشاہراہ سے گذرنے والے راہگیروں سے پوچھتے پوچھتے مغرب کی نماز کے وقت اُس عالیشان مسجد کے پاس پہنچے۔
خطا کرنے کا ایک فائدہ ہمیں ضرور ہوا کہ مسجد کے باہری حصوں کو چہار جانب سے دیکھنے کا موقع ملا۔
مولانا موصوف ہمیں مسجد کے پاس چھوڑ کر وضو سے فارغ ہونے کا کہااور گاڑی پارک کرنے چلے گئے اور میں برادرم ابوالحسن کے ساتھ جیسے ہی مسجد کے دالان میں قد م رکھا تو میری حالت کچھ ایسی تھی کہ.............!
’’ ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب ہیں‘‘
شب کو بقعۂ نور بنانے والی روشنیاں مسجدکے چاروں طرف اپنے جلوے بکھیر کر اُس کی خوبصورتی کو دو بالا کررہی تھیں، نیم باز آنکھوں سے سیاحوں کے جم غفیر پر جب میں نظر ڈالاتو مجھے وہ مسجد کم اور سیاحت کی جگہ زیادہ نظر آئی۔ سور ج اپنی تمام تر روشنی بکھیر تے ہوئے اعتراف شکست کے بعد معدوم ہورہا تھا، اور پھر بادلوں سے جھانکتی ہوئی بچی کچی روشنی بھی الوداعی کے نغمے گارہی تھی ، ایک عجیب منظر تھا، مسجد کے منارے اتنے وسیع اور بلند کہ لگتاہے کہ پوری خوش اُسلوبی اور وسعتِ قلبی کے ساتھ سیاحوں کا استقبال کررہے ہوں۔مسجد کی ساخت ، ترتیب و تنظیم اتنی زیادہ متاثر کن تھی کہ میں اسی کے بھول بھلیوں میں کھو کر رہ گیا۔پوری مسجد کو سنگ مر مر سے ایسے لاد دیا گیاتھا کہ ستاروں کی روشنی میں یوں لگ رہاتھا کہ دودھ سے نہلایا جارہا ہو۔ اتنے میں مولانا ہاشم صاحب نے پیچھے سے آواز لگائی تو میںیوں چونکا جیسے کسی نے مجھے خوابِ غفلت سے بیدارکیاہو۔
تہہ خانے میں وضوخانہ اور ضروریات سے فارغ ہونے کے لیے انتظام کیا گیا تھا، چونکہ ان دنوں اس شہرکا موسم خنکی تھا تو گرم پانی کا انتظام ہر مسجد میں کیا گیا تھا اور پھر قریب مغرب تو خنکی میں تیزی آجاتی تھی ،مزید یہ کہ مسجد کے چاروں جانب حوض بنائے گئے تھے تو ٹھنڈی میں شدت پیدا ہورہی تھی، خیر وضوخانے میں قدم رکھا توہونٹوں پر کچھ سوچ کر مسکراہٹ بکھیر گئی، مجھے لگا کہ یہاں ماربل جیسی قیمتی پتھر کی بھی کوئی قیمت نہیں کیوں کہ بیت الخلاء تک کو ماربل پتھروں سے سجایا گیا تھا۔
وضو کے بعد مسجد کے اندر نماز کی ادائیگی کی نیت سے داخل ہوئے تو دیکھا کہ سیاحوں کو پوری مسجد میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی، خواتین اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ عین ممبر کے سامنے کھڑ ے ہوکر مسجدکا داخلی دیدار کرسکتے تھے جہاں اچھا خاصافاصلہ بنا ہوا تھا۔ قبل اس کے کہ مسجد کے اندرونی خوبصورتی کو دیکھ کر مغرب کی نماز ضائع کرلیتا یا پھر نماز کے اندر اسی کو یاد کرکے نماز برباد کرلیتا ، بائیں جانب جو پہلے ہی سے ایک جماعت کھڑی تھی اس کے ساتھ ہی سب نماز میں شامل ہوگئے، نماز سے فراغت کے بعد میں پوری مسجد میں نظر دوڑایا خوبصورتی کو دیکھ کر اور محراب کے اوپر اللہ کے ننانوے ناموں کی کشیدہ کاری اور پھر مسجد کے جھومر کی لمبائی و چوڑائی کو دیکھ کر صرف اتنا کہہ سکا،سبحان اللہ،ماشاء اللہ
پھر تھوڑی بہت سیاحت کے بعد ہمارا قافلہ واپس اپنے منزل کی جانب لوٹ رہاتھا اور میرے ذہن میں وہی باتیں گردش کررہی تھیں جو میں نے اس تحریر کے آغاز میں کیا کہ، واقعی کیا یہ سوال ہوگا کہ مسجد کتنی خوبصورت بنائی یا پھر مسجدوں کو آباد کرنے کے لئے کتنے بندوں تک تبلیغ کی؟؟
(قارئین! یہ میرے سفر کی تیسری قسط ہے اور ابھی پہلا ہی دن مکمل ہوا ہے، اگلے دنوں کی داستاں لے کر پھر حاضر ہوں گا، سلسلہ جاری رہنے دیجئے، اگلی کڑی کا انتظارکریں)
Share this post
