بھٹکل 11؍ نومبر 2021(فکروخبرنیوز) ادارہ ادبِ اطفال بھٹکل کے تحت قائم کہکشاں کے زیر اہتمام کل رات دفتر ادارہ ادبِ اطفال میں ایک شام سید سالک ندوی کے نام سجائی گئی ۔ علم وادب کے فروغ کے لیے قائم اس ادارہ کی جانب سے وقتاً فوقتاً اس طرح کی محفلیں منعقد ہوتی رہتی ہیں اور بھٹکل میں ادبی ذوق پروان چڑھانے کی کوششیں جاری ہیں۔
ادارہ کے اہم ذمہ دار مولانا سمعان خلیفہ ندوی نے پروگرام کے انعقاد کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے بھٹکل میں علم ادب کے ذوق کو اسلاف کی کوششوں کا نتیجہ قرار دیا۔ مولانا نے کہا کہ جن لوگوں نے یہاں اردو کا پودا لگایا آج انہی کی کوششوں کے نتیجہ میں ہمیں اردو سمجھنے اور بولنے کا موقع ملا ہے ۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں ان کی کوششوں میں شامل میں ہونا اور اس کارواں سے جڑنا ہے۔ مولانا نے بتایا کہ ہم شکوہ کرنے کے بجائے اپنے حصے کی شمع جلاتے جائیں تاکہ ہم مستقبل میں دین وادب کی فضاقائم کرنے والے بن جائیں۔ مولانا سمعان صاحب ندوی نےمزید بتایا کہ مولانا سالک ندوی کو بچپن ہی سے علم وادب کا شوق اللہ نے عطا کیا اور ان کے گھر کے ماحول نے انہیں آگے بڑھایا۔ ان کو دیکھ کر یہ بات یاد آجاتی ہے کہ بچپن میں جو چیزیں ذہنوں پر نقش ہوتی ہیں وہ پھر کبھی نہیں نکلتیں ، مولاناسالک ندوی کو چھ یا سات کی عمر میں کئی شعراء کے کلام یاد تھے خصوصاً حفیظ میرٹھی کا کلام انہیں بے حد پسند تھا۔ مولانا نے اپنے زمانۂ طالبِ علمی کے واقعات کی روشنی میں بتیا کہ آج اللہ تعالیٰ نے جن وسائل سے ہمیں نوازا ہے ان کی قدر یہ ہے کہ ہمیں ان وسائل کو بہتر سے بہتر طریقہ پر استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
مولوی عبداللہ دامدا ابو ندوی نے مولوی سالک ندوی کا تعارف پیش کرتے ہوئے اس محفل میں شرکت پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
اس کے بعد مولانا سالک ندوی نے اپنے کلام سے نوازتے ہوئےاہم سوالات کے جوابات بھی دئیے اور جامعہ کے تعلیمی دور کی حسیں یادوں کو تازہ کردیا۔ اس دوران انہوں نے جناب فطرت بھٹکلی صاحب ، مولانا عبدالباری صاحب ندوی رحمھما اللہ کو یاد کیا اور چند قصے بھی سنائے جس سے سامعین کو حوصلہ بھی ملا اور آگے بڑھنے کا عزم بھی۔
سید سالک ندوی کا کلام ملاحظہ فرمائیں۔
دلیلِ لغزشِ آدم ہے لیکن
شعورِ توبۂ آدم نہیں ہے
خوشی میں ساتھ تو دیتے ہیں لیکن
مصیبت میں کوئی ہمدم نہیں ہے
زمانے نے بڑے درماں کیے ہیں
ہمارے زخم کا مرہم نہیں ہے
قیادت کی نگاہوں میں ابھی تک
یقیں محکم عمل پیہم نہیں ہے
اسی کی یاد سے دل کو قرار ملتا ہے
وہ درد جس نے دیئے اور بے پناہ دیئے
غمِ حیات کے رستہ میں پیچ وخم تھے بہت
ہمارا ظرف سلیقے سے جو نباہ دئیے
ہمارے نام سے زندہ ہے آج بھی مقتل
بتوں کے شہر میں وہ درسِ لا الٰہ دیئے
محبتوں کے اجالے بکھر گئے سالک
جہانِ شہرو ادب کو وہ مہروماہ دیئے
اس محفل میں سید سالک ندوی کا کلام مختلف انداز میں کہکشاں سے جڑے افراد نے اپنے انداز میں سنایا۔ آخر میں مولانا زبیر ندوی نے اپنے تأثرات پیش کیے۔ دعائیہ کلمات پر نشست اپنے اختتام کو پہنچی۔
Share this post
