تعزیت نامہ بروفات شیخ عبدالودود اکرمی مدنی : منجانب مدرسۃ العلم العالمیۃ KNOWLEDGE INTERNATIONAL SCHOOL
انا لله وانا اليه راجعون
اللهم اغفر له وارحمه وعافه واعف عنه وأدخله فسيح جناتك۔
"كل نفس ذائقة الموت"۔
موت حضرتِ آدم کی میراث ہے۔ہر ذی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے ۔کیونکہ جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں،لیکن اگر کسی عزیز یا موجودہ وقت میں کسی جواں سال عالم یا داعی و مبلغین کے وفات کی خبر ملتی ہےتو ایک عجیب سی کڑھن اور صدمہ سا لگتا ہے کیونکہ *”موت العالم موت العالم”* (ایک عالم کی موت دنیا کی موت کے مانند ہے)۔
اسی طرح آج شیخ عبد الودود اکرمی عمری مدنی کے وفات کی خبر ملی ۔شیخ کا شمار شہر بھٹکل کے مشہور علماء میں ہوتا ہے۔
شیخ کل تین سال مدرسہ العلم العالمیہ ( Knowledge International Arabic School ) میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے ہیں اور ایک سال صدرمدرس کے بھی مقام پر فائز رہے ہیں۔
شیخ ماشاءاللہ علم کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھے، کبھی کسی کو کوئی مسئلہ پیش آتا تو شیخ سے رجوع کرتے، خاص طور پر شیخ کو فقہ ، اصول فقہ اور فرائض میں مہارت حاصل تھی۔ اس کے علاوہ شیخ کتاب و سنت پر عمل کرنے والے اور عقیدے کے بڑے پکے تھے۔
اور ساتھ ہی ساتھ مدرسہ میں وقت کے بھی بہت پابند تھے، کبھی ان کو بغیر عذر کے تاخیر کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا، شیخ ماشاء اللہ اساتذہ کے مابین کافی مقبول اور ایک مثالی شخصیت تھے اور طلبہ کے مابین بھی محبوب ترین استاد تھے۔
کبھی کسی طالب علم کو ان سے شکایت نہیں تھی ،ہمیشہ طلبہ کی ہمت افزائی کیا کرتے تھے اور ہمیشہ ان کی اصلاح کی فکر کیا کرتے تھے، بہت ہی خوش مزاج، ہمیشہ مسکراتے رہے تھے، دوران تعلیم بھی طلبہ کو اپنے جانب مصروف رکھتے، شیخ کی تدریس کا انداز اتنا بہترین ہوتا کہ ہر کوئی ان کی جانب متوجہ ہو جاتا اور ہمہ تن گوش ہو کر آپ کی بات کو سنتا۔
موصوف کو کبھی غصہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا اگر مدرسے میں یا دوران درس کسی طالب علم سے کوتاہی ہوتی تو شیخ اسے اپنے مفید کلمات اور نصائح سے نوازتے۔
گزشتہ سال اخیر میں جب وہ اپنی بیماری کی وجہ سے مدرسے میں حاضر نہ ہو پاتے تو اس پر افسوس کا اظہار کرتے۔ اسی بیماری کی وجہ سے انہوں نے مدرسے سے ایک سال کا وقفہ لیا ہوا تھا تاکہ وہ اس وقفہ میں اپنا علاج کرا سکیں اور ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ ان کی غیر حاضری کی وجہ سے مدرسہ اور طلباء کا خسارہ نہ ہو۔
اپنے اس وقفہ کے باوجود موصوف ہمیشہ مدرسے سے جڑے رہے اور اپنے آخری ایام تک مدرسے کو مفید مشوروں سے نوازتے رہے اور ہمیشہ مدرسے کی ترقی کی فکر کرتے اور منتظمین کو بھی ہمت دلاتے کہ وہ اس مدرسے کی ترقی میں ان کے ساتھ ہیں۔
اس کے علاوہ بعض طلبہ کو شیخ کے ساتھ سفر کا موقع بھی ملا جس سے انہیں پتا چلا کہ شیخ بہت ہی خوش مزاج اور ملنسار طبیعت کے مالک ہیں کہیں بھی جاتے لوگوں سے گرم جوشی سے ملتے اس طور پر کے ہر کوئی ان کا گرویدہ ہو جاتا، اپنے اساتذہ اور ساتھیوں میں بھی ہر دلعزیز تھے ہر کوئی ان کی تعریف کرتے نہیں تھکتا۔
اور ساتھ ہی ساتھ مرحوم خود ایک تاجر بھی تھے اور شیخ کے آن لائن دروس بھی ہوا کرتے تھے جن سے طلبہ کے ساتھ ساتھ عوام بھی مستفید ہوا کرتی تھی۔
آج شیخ ہمارے بیچ نہیں ہیں لیکن وہ اپنے پیچھے بہت سارا علم چھوڑ گئے ہیں جس سے انشاء اللہ فائدہ اٹھایا جاتا رہے گا اور شیخ کو اس کا اجر ملتا رہے گا۔
شیخ کے انتقال کی خبر ملی تو کسی کو یقین نہیں ہو رہا تھا اور ہر کوئی غم میں ڈوبا ہوا تھا۔ قدر الله ما شاء فعل۔
یقیناً یہ ایک ازمائش کا مقام ہے۔ مدرسۃ العلم العالمیہ کے تمام ذمہ داران اساتذہ اور طلبا ان کے خاندان والوں کے ساتھ برابر غم میں شریک ہیں۔ یہ ہم تمام کا مشترکہ غم ہے
اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور ان کے حسنات میں اضافہ فرمائے اور ان کی سیئات کو درگزر فرمائے اور ان کے درجات کو بلند فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین
Share this post
