بھٹکل 14/ جون 2020(فکروخبرنیوز) شہر بھٹکل کے نام سامنے آتے ہی انجان شخص کے ذہنوں میں کئی طرح کے سوالات جنم لینے لگتے ہیں۔میڈیا سے لے کر سیاستدان تک من گھڑت باتیں بیان کرکے ذہنوں کو مسموم کرنے میں پیش پیش رہے ۔ بعض سیاستدانوں کی طرف سے وقفہ وقفہ سے سامنے آنے والےبیانات ہی اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ان کے پیچھے کیا مقاصد کار فرما ہیں لیکن ان کوششوں سے بھٹکل کی شبیہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا کیونکہ جھوٹ کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی ہے اور سچائی ایک نہ ایک دن سامنے آہی جاتی ہے۔
اہلیانِ بھٹکل ہمیشہ نیکی کمانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، سماجی خدمات میں یہاں کے ایک ادارہ نے ایک صدی مکمل کی ہے۔ اس کے علاوہ انفرادی طو رپر بھی کئی احباب قوم وملت کی خدمت میں پیش پیش رہتے ہیں، جب وہ میدان میں اترتے ہیں تو مسالک ومذاہب سے اوپراٹھ کر انسانیت کی خدمت کواپنا نصب العین بناتے ہیں۔ بھلے ہی خدمت کرنے والے کو اس کا اندازہ نہیں ہوتا لیکن اس کے ذریعہ معاشرہ پر مرتب ہونے والے اثرات حیران کن ہوتے ہیں۔
متحدہ عرب امارات میں بھٹکل ومضافات کے ہزاروں لوگ برسرِ روز گار ہیں، ان میں ایک تعداد ان لوگوں کی ہےجوتجارت کرتے ہیں اور ایک تعداد ان افراد کی بھی ہے جو کمپنیوں میں ملازمت کرتے ہیں۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا اثر اس خلیجی ملک پر کافی گہرا ہوا جس کے نتیجہ میں یہاں کی تجارت کی رفتار دھیمی ہوگئی۔ لوگوں کی ملازمتیں ختم ہونے سے پریشانیاں بڑھ گئیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے باہر نکلنا ناممکن اور پھر اوپر سے کورونا وائرس کا خوف، خوف ودہشت کے ان ماحول میں زندگی گذارنا آسان ہی نہیں بلکہ مشکل ترین کام ہے۔ کھانے پینے کے اشیاء کی فراہمی بھی ان لوگوں کے لئے نیا مسئلہ پیدا کررہی تھی۔ ایسے حالات میں پردیسیوں کو دیس کی یاد ستانے لگی لیکن ہزاروں کلومیٹر دور ذریعہئ معاش کے لئے جانے والوں کے سامنے دور دور تک وطن واپسی کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔
12اور 13جون بھٹکل کی تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے کہ لاک ڈاؤن اور کورونا وائرس کی وجہ سے متحدہ عرب امارات میں پھنسے ان افراد کے لئے امید کی کرن لے آئی اور جناب عتیق الرحمن منیری اور ان كى معاون رفقاء کی کوششوں سے ایک خصوصی طیارے کے ذریعہ وہ لوگ اپنے وطن لوٹنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان 184مسافروں میں قصبہ منکی سے تعلق رکھنے والے دوافراد کا تعلق ہندو مذہب سے ہے، وطن لوٹنے پر ان کی خوشیوں کا ٹھکانہ نہیں تھا، انہیں اب بھی یہ حقیقت خواب کی طرح محسوس ہوتی ہے۔ان کے ہر رگ وریشہ سے جذبۂ شکر صاف طور پر نظر آرہا ہے۔ ان کی خوشیاں جو انہیں کبھی خواب لگتی تھی اب حقیقت میں صاف طور پر بدل چکی ہیں ۔
در اصل سنتوش سریش اچاری اور اس کی بہن سوما سریش اچاری نے ملک لوٹنے کی پوری تیار کرلی تھی۔ سوما کا رشتہ طئے ہوئے کئی ماہ گذرچکے تھے، اب گاؤں میں شادی کی تیاریاں چل رہی تھیں بلکہ ختم بھی ہوچکی تھیں اہلِ خانہ سوما کے گھر لوٹنے کی راہ تک رہے تھے لیکن اس دوران ہی کورونا وائرس کی وجہ سے ملکوں کے سفر پر روک لگادی گئی اور سوما کے خواب پوری طرح بکھر گئے لیکن جب انہیں اس بات کاپتہ چلا کہ بھٹکل ومضافات سے تعلق رکھنے والے افراد کے لئے ایک خصوصی طیارے کا نظم کیا جارہا ہے تو انہیں امید کی کرن نظر آئی، انہو ں نے بھی اپنے نام رجسٹرڈ کروائے اور یوں وہ اپنے وطن پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ سریش اپنا واقعہ کچھ یوں بیان کرتا ہے کہ جب جانے والوں میں ہمارا نام بھی شامل نظر آیا تو خوشیوں کا ٹھکانہ نہیں رہا۔ ہمیں منتظمین نے اپنوں کی طرح سمجھااورہماری ضروریات کا پورا خیال رکھا۔ ایرپورٹ سے باہر نکلنے پر ایک جماعت استقبال کے لئے کھڑی تھی جنہوں نے ہمیں اپنوں سے زیادہ محبتیں دیں۔ منگلور ایرپورٹ پر ناشتہ کا انتظام اور پھر بھٹکل پہنچنے پر اپنائیت کا احساس، شہر میں داخل ہوتے ہی استقبال کے لئے کھڑے ذمہ دارانِ قوم اور بے لوث خدمات انجام دینے والے نوجوان۔ انہو ں نے ان انتظامات پر نہ صرف شکر ادا کیا بلکہ ان کے پاس اس کے اظہار کے لئے الفاظ نہیں ہیں۔
ملک کی مسموم فضا میں یقینا انسانیت کے نام پر کی جانے والی کوششیں نہ صرف اسلامی تعلیمات کا حصہ ہیں بلکہ موجودہ دور کی سب سے بڑی ضرورت ہے، اس طور پر کہ اس کے ذریعہ سے پورے ملک پر پڑنے والے اثرات کا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔
Share this post
