مرحوم ڈاکٹر میراں دامودی

فکروخبر ڈیسک رپورٹ

 شہر کے معالجین میں ایک اہم نام ڈاکٹر میراں کا تھا۔ ایم بی بی ایس کی ڈگری ہولڈر ہونے کے باوجود ان کی سادگی ان پر زیادہ چھائی رہی۔ عموماً دیکھا جاتا ہے کہ تعلیم یافتہ افراد اپنی قابلیت دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ بسا اوقات یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ وہ وقت کی تاک میں رہتے ہیں کہ کب موقع ملے اور میں اپنی قابلیت کا لوہا منوالوں لیکن قدرت نے دنیا میں ایسے انسان بھی پیدا کیے جو اپنے فن میں ماہر ہونے کے باوجود کبھی اس کا اظہار نہیں کیا۔ ظرافت کے طور انسان بہت سی باتیں  کہتا ہے لیکن اس کا دل ان نعمتوں کے شکرانے میں سجدہ ریز ہوتا ہے۔

ڈاکٹر میراں مرحوم کا شمار بھی ان ہی افراد میں ہوتاہے جنہوں نے کبھی اپنی تعلیم پر فخر محسوس نہیں کیا۔ ایک ماہر نبض شناس اور معالج ہونے کے باوجود کبھی اپنی بڑائی بیان نہیں کی۔ گرچہ ان کے انتقال کے بعد ظرافتاً کہی جانے والی باتیں بہت سے لوگوں کی زبانی سننے کو مل رہی ہیں لیکن خود کو نمایاں نہ کرنے کی صفت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کبھی اپنی تعلیم پر انہوں نے فخر محسوس نہیں کیا اور نہ کوئی بڑائی بیان کی۔

ان کا اپنے ربِّ حقیقی سے تعلق  بہت مضبوط تھا ، صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے ، ہمیشہ ان کی زبان ذکر اللہ سے تر ہوتی تھی۔ نماز کی اوقات کا خاص خیال رکھتے تھے۔ اپنے کلنک میں مریض موجود ہونے کے باوجود وہ اپنی نماز باجماعت اور تکبیرِ اولیٰ کے اہتمام کے ساتھ ادا کرتے تھے۔

بعض خاندانوں کے بارے میں معلوم ہوا کہ جب بھی ان کے یہاں کوئی بیمار ہوتا تو سبھوں کی زبان پر ڈاکٹر میراں کا نام آجاتا ، وہ بھاگتے بھاگتے ڈاکٹر میراں صاحب کے کلنک میں آتے ، اس وقت علاج سے قبل ہی ظرافتاً کچھ ایسی باتیں کہہ دیتے جس سے بیمار شخص اپنے طبیعت میں ہلکا پن محسوس کوتا ، اسے یوں محسوس ہوا کہ دوائی کے مقابلہ میں ڈاکٹر صاحب کا ظریفانہ مزاج سے ہی طبیعت اچھی ہوجاتی ہے۔

اپنی زندگی میں ڈاکٹر صاحب نے خود کو علم سے جوڑے رکھا ، مطالعہ ان کا بہترین مشغلہ تھا، مختلف موضوعات پر سوشیل میڈیا پر وائرل تحریریں ان کی علمی حیثیت کو نمایاں کرتی ہیں ، عمر کے اس مرحلہ میں پہنچنے کے باوجود ٹیکنالوجی سے خوب مانوس رہے۔ وھاٹس اپ کے مختلف گروپس کےذریعہ قوم تک اپنی بات پہنچایا کرتے تھے۔ اپنے موقف دلائل کی روشنی میں واضح کرنے کی کوشش کرتے۔ اپنی بات منوانے کا ہنر بھی رکھتے تھے۔

ڈاکٹر صاحب کا ایک  اہم وصف یہ تھا کہ وہ اجنبی سے بہت جلد مانوس ہوجاتے تھے۔ ہر کسی سے ایسے ملتے تھے جیسے ان سے برسوں پرانے تعلقات ہوں، اپنے بڑوں سے ملنے کے دوران ان کی عمر کا خاص خیال رکھتے اور چھوٹوں سے ملاقات میں ان کے سامنے کوئی علمی بات رکھ کر ان کا صلاحیت کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے۔ ان کا علاج کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم سے شغف بھی دلانے کی کوشش کرتے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی موت کے بعد ہرکوئی ان کی باتیں نقل کررہا ہے۔ ایسے محسوس ہورہا ہے کہ ڈاکٹر صاحب سے ان کا گہرا تعلق رہا ہو۔

اپنی خدمات کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ اپنی چھوٹی سے کلنک میں بیٹھ کر انہوں نے قوم وملت کی عظیم خدمات انجام دیں اور اپنے پیشے کے ذریعہ یہ ثابت کردیا کہ حقیقی خادم وہی ہوتا ہے جسے خدمت کے لیے کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔  

مرحوم کو فکروخبر سے غیر معمولی تعلق تھا ، خصوصی طور پر جب اس کا سیدھی بات کا پروگرام شروع ہوا تھا تو انہوں نے بڑی ہمت افزائی کی تھی ، اس کے علاوہ ادارہ کے مختلف دینی اور دعوتی پروگراموں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اسے سراہتے تھے۔

اللہ تعالیٰ ڈاکٹر میراں صاحب کی بال بال مغفرت فرمائے او رانہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ آمین

Share this post

Loading...