بجنور بم دھماکہ کیس میں تفتیشی ایجنسی کی درخواست پر دفاع کا سخت اعتراض

واضح رہے کہ بجنور( اتر پر دیش) میں ۱۲؍ستمبر ۲۰۱۴ میں ایک دھماکہ ہو ا تھا ، جس کے بعد یوپی اے ایس ٹی نے رئیس ،عبد اللہ ،فرحان ،ندیم اور حسنہ نامی ایک خاتون کو گرفتار کرتے ہوئے ان پر ملک کے خلاف جنگ ،سازش اور غیرقانونی ہتھیار و دھماکہ خیز مادہ رکھنے کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کے خلاف یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا اور اسی کے مطابق ان کے خلاف فرد جرم بھی عائد کیا۔اس کیس کی سماعت پہلے بجنور کی ضلع عدالت میں ہو ئی، اس کے بعد حکومت ہند نے جب یہ مقدمہ این آئی اے کے حوالے کر دیا تواس کی سما عت بجنور ضلع عدالت سے لکھنؤاین آئی اے کی خصوصی عدالت میں منتقل ہو گئی۔ بجنور کی ضلعی عدالت میں وکلاء نے اس کیس کا با ئیکاٹ کر دیا تھا ۔جس کے بعد ان ملز مین کے اہل خانہ نے اس کی قانونی پیروی کرنے کے لئے جمعیۃ علماء مہاراشٹرسے درخواست کی تھی۔جمعیۃ علماء مہاراشٹر نے اس کیس کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے اس مقدمہ کی پیر وی کے لئے دہلی کے مشہور ایڈوکیٹ ابوبکرسباق سبحانی کونامزد کیا۔
جمعیۃ علماء مہاراشٹر لیگل سیل کے سکریٹری ایڈووکیٹ تہورخان پٹھا ن کے مطابق جب این آئی اے کی جانب سے ملزمہ کی آواز کے نمونے حاصل کرنے کے لئے عدالت سے درخواست کی تو ہماری جانب سے یہ اعتراض کیا گیا کہ جب عدالت کے روبرو یہ بات آئی ہی نہیں ہے کہ این آئی اے ملزمہ کی آواز کے نمونے کا موازنہ کس آواز سے کرنا چاہتی ہے اور ملزمین کے خلاف جو فردِ جرم داخل کی گئی ہے اس میں موازنہ والی آواز کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے تو پھر کن بنیادوں پر آواز کا نمونہ دینے کی اجازت دی جائے گی؟ اس کے علاوہ ہمارے وکیل ابوبکر سباق سبحانی نے ہائی کورٹ وسپریم کورٹ کے مختلف فیصلوں کا بھی حوالہ دیا کہ آواز کا نمونہ حاصل کرنے کے لئے کسی ملزم کو مجبور نہیں کیا جاسکتا اور یہ کہ آواز کا نمونہ حاصل کرنے سے قبل عدالت کے روبرو یہ واضح کیا جائے کیا جائے کہ جس آواز کا نمونہ حاصل کیا جارہا ہے، اس کو موازنہ کس آواز سے کیا جائے گا۔ ہمارے وکیل کی جانب سے اس اعتراض کا جواب این آئی اے دینے میں فی الحال ناکام رہی، جس کی بناء پر عدالت نے اس معاملے کی سماعت اگلی تاریخ تک ملتوی کردی ہے۔
ایڈووکیٹ تہور خان پٹھان کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ نہ تو ایس ٹی ایف کے پاس اس معاملے میں گرفتار کئے گئے ملزمین کے خلاف کوئی خاطر خواہ ثبوت ہے اور نہ ہی این آئی اے کے پاس۔ این آئی اے کی جانب سے دو سال بعد اب جبکہ اس مقدمے کی سماعت کافی آگے نکل چکی ہے، ایک ملزمہ کی آواز کے نمونے حاصل کرنے کی درخواست دینا، دراصل مقدمے کو الجھانے کی کوشش ہے اور عدالت کے پاس اس کی فرضی سنگینی واضح کرنے کی کوشش ہے۔ ہماری جانب سے عدالت کے روبرو ملزمین کی بے قصوری کے حق میں جو دلائل وثبوت پیش کئے جا رہے ہیں جو کہ قانونی باریکیوں پر مبنی ہیں اس سے ان کی بے گناہی ثابت ہونے کی امید بر آئی ہے۔ اس موقع پرمولانا حافظ محمد ندیم صدیقی نے کہا کہ ملک کی بیشتر تحقیقاتی ایجنسیا ں اصل مجرمین کو گرفتار نہ کر تے ہو ئے ایک سونچی سمجھی سازش کے تحت بے قصور مسلم نوجوانو ں کو گرفتار کرکے ان پر بے بنیاد الزمات عائد کرتے ہوئے بر سو ں تک سلا خوں کے پیچھے رہنے پر مجبور کر رہی ہیں۔ اس معاملے میں بھی گرفتار شدہ پانچوں افراد بے قصوور ہیں ان کو جان بو جھ کر پھنسایا گیا ہے جمعیۃ کے وکلاء اس کیس کی مضبوط طریقے پر پیروی کرہے ہیں انشاء اللہ دیگر مقدمات کی طرح اس کیس میں بھی ملز مین کو اانصاف ملے گا اور انہیں رہائی نصیب ہوگی ۔ 

Share this post

Loading...