عبداللہ دامداابو ندوی
انڈےلے لو ، انڈےلے لو۔ بہت ہی سستے بہت ہی اچھے۔
انڈے لےلو۔۔۔۔۔انڈے لے لو۔۔۔
کون جانتا تھا کہ گلیوں گلیوں شور مچاتے اس مزدور بچے کی پیشانی سے نکلنے والے پسینے کے موٹے موٹے قطرے کبھی علم و ادب کے موتی بن کر ایک جہاں کو چمکائیں گے اور ایک پوری نسل اس سے فیض یاب ہوگی۔۔۔۔
کون جانتا تھا کہ گھر گھر اخبار تقسیم کرنے والا ، گرد و غبار سے اٹا یہ معصوم لیکن ہوش مند اور زیرک لڑکا ایک دن علم و فن اور تعلیم و تربیت کی ترویج میں کوشاں ہوگا۔۔
کون جانتا تھا کہ ممبئی کے محلوں اور گلی کوچوں میں آواز دینے والا یہ معصوم بروا ایک دن فاروق سید بنے گا۔۔
جی ہاں! آج جب ہم گل بوٹے کی سلور جوبلی سے لوٹ رہے ہیں تو اس کے مدیر اور روح رواں فاروق سید کی کتاب زندگی کی ورق گردانی کررہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ سچی لگن،عزم و حوصلہ اورمحنت و قوت ارادی سے آدمی کس طرح زمین کی تہوں سے آسمان کی رفعتوں تک پہنچتا ہے۔۔ واقعی
محنت پاتی ہے انعام
جس کی تھکن اس کا آرام
محنت کی بیداری سے
سرمائے کی نیند حرام
فاروق سید نے خواب و خیال کے دیوانوں بلکہ خیالی پلاٶ میں مست و مگن رہنے والوں اور عیش و عشرت کے شبستانوں میں پلنے والے نوجوانوں کو پیغام دیا کہ
چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوج ثریا پہ مقیم
پہلے پیدا تو کرے ایسا کوئی قلب سلیم
گزشتہ دن پھول کی طرف سے جناب فاروق سید صاحب کا انٹریو ہوا،ہم نے انٹرویو کے دوران میں پوچھا کہ جناب ! آپ کس ادب کے قائل ہیں؟
فاروق سید صاحب نے جوش جذبے سے سرشار ہوکر جواب دیا: *ہم اس ادب کے قائل ہیں جس ادب سے دین و اخلاق کی ترویج ہو اور جس ادب سے تعلیم و تربیت عام ہو۔۔
فاروق سید کے انٹریو کا یہ اقتباس یقینا آبِ زر سے لکھنے کے لائق ہے اور ادب برائے ادب کا نعرہ لگانےوالوں کے لیے زور دار طمانچہ رسید کرنےوالا ہے۔۔اوربلا شک فاروق سید نے پوری زندگی اسی میں کھپائی:
تشکیل وتکمیل فن میں جو بھی حفیظؔ کا حصہ ہے
یہ نصف صدی کا قصہ ہے دوچار برس کی بات نہیں
ہمیں ”گل بوٹے“ کی سلور جوبلی میں دوطرح کے ادباء نظر آئے۔۔ایک وہ جو ادب برائے ادب کا نعرہ لگاتے پھرتےہیں اور دوسرے جو ادب کے ذریعے دین و اخلاق کی شمعیں فروزاں کرتے ہیں۔۔۔
جولوگ ادب برائے ادب کے قائل ہیں ہم ان سے صرف یہی کہتے ہیں کہ اب دشمنان دین مبین بھی ادب برائے ادب کے قائل نہیں رہے ،اب ان روشن خیالوں کو دیکھنا چاہیے کہ اعدائے اسلام اور اعدائے اردواپنی پوری توانائی اور اپنے ادب پاروں کو کس کے خلاف اور کس طرح استعمال کررہے ہیں۔۔
پھر بھی ان کی رسائی ان تک نہیں ہوپائی تو ہمارے ساتھیوں سے ضرور ملاقات کریں۔۔
بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔۔
گل بوٹے نے اپنے پچیس سال مکمل ہونے پر بچوں کی پچیس کتابیں شائع کرکے بچوں کے لیے اپنی سلور جوبلی کو یاد گار بنایا۔ان کتابوں میں وہ کتابیں بھی ہیں جن پر بہت کم توجہ دی گئی اور ان کی اشاعت پر ایک عرصہ گزرگیا تھا۔۔
پھول اور ادارہ ادب اطفال کی نمائندگی بھی رہی۔ *میراں معظم،ابراہیم رکن الدین،جناب فیصل پیشمام اور احمد ایاد* جیسے جیالے ہمارے ساتھ تھے۔انھوں نے پھول کے تعارف کی حتی المقدور کوشش کی۔۔
چار روزہ عالمی کانفرنس خوب رہی بلکہ خوب سے خوب تررہی۔
اس کانفرنس سے یہ احساس ضرور بیدار ہوا کہ بچوں کا ادب پہلےسے زیادہ زندہ و تابندہ ہے۔اب بچوں کا ادب پرانی روایات سے ہٹ کر ایک نئے دور کے آغاز کے لیے بے تاب ہے۔۔
لیکن اس کے لیے ادارہائے ادب اطفال کے ذمہ داران اور ٹرسٹیان کو اپنی بیدار مغزی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔مرعوبیت کے لبادےکو اتار کر خود اعتمادی اور خود داری کا لبادہ اوڑھنا ہوگا۔۔بچوں کے رسائل و کتب کو تحریکی انداز اختیار کرنا ہوگا اور بچپن ہی میں بچوں اور قارئین کی تربیت اس انداز سے کرنی ہوگی کہ وہ اس عالم رنگ و بو کے کسی بھی حصےمیں پہنچیں تو ببانگ دہل کہیں کہ
زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آداب سحر خیزی
اور پھر تخریب کاروں اور روشن خیال ادباء کی آنکھ میں آنکھ ملا کر یہ کہیں کہ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف
اس چار روزہ کانفرنس میں ماہ نامہ پھول اور ادارہ ادب اطفال بھٹکل کا یہی پیغام تھا۔۔
جناب فاروق سید،جناب حسن چوگلے جناب سراج عظیم اور دیگر ذمہ داران اور کنوینران خصوصی طور پر لائق صدتحسین اور قابل ستائش ہیں کہ جن کی جہدمسلسل اور سعی پیہم سے چار روزہ سلور جوبلی بحسن و خوبی اختتام پذیر ہوئی۔۔
اس سفر میں ادارہ ادب اطفال کی طرف سے بننے والی ایک اور خوبصورت بچوں کی لائبریری کے لیے رنگا رنگ،جاذب نظر اور علم وحکمت سے بھری کتابیں خریدی گئیں اور اس طرح اس سفر کو دوحیثیتوں سے کامیاب بنایا گیا۔۔
مولانا سراج الدین ندوی کی توجہات برابر رہی۔برادر فیضان نعمانی کے یہاں پھول کے بے شمار قارئین سے ملاقات کرکے دل کے کنول کھل گئے۔۔
مولوی عمران ندوی اجراڑے سے خصوصی طور پر آئے ہوئے تھے،ان کے تکلفات نے بہت شرمندہ کیا اور برادر شعیب نعمانی،برادر ابوبکر و عثمان ندوی کی مہمان نوازی یاد رہے گی۔اس سفر میں جناب فیصل صاحب پیشمام اور مولانا سید ہاشم صاحب ندوی کی کرشمہ سازیوں کے اور عجب نمونے دیکھے۔۔
چلیے صاحب
پھر چلی ہے ریل اسٹیشن سے لہراتی ہوئی
عبداللہ دامداابو ندوی
(مدیر ماہ نامہ پھول بھٹکل)
منگلور اکسپریس
Share this post
