سرخی: بھٹکل میں کتے کا گوشت...بکرے کے گوشت کے ساتھ ملا کر ہورہی ہے فروختگی
بھٹکل : گوشت خریدتے وقت ہوشیار رہیں..اگر تھوڑا سا بھی خیال چوکا تو آپ کو کتے کا گوشت کھانا پڑے گا...ایسی خبردار کرنے والی باتیں بھٹکل میں گونج رہی ہیں...بھٹکل کے دیہی علاقہ کا ایک شخص گذشتہ تین برسوں سے تعلقہ ساگر روڈ میں واقع گڈے کٹے میں آوارہ کتوں کو کاٹ کر اس کا گوشت ایک تھیلے بھرتا تھااور پھر اس گوشت کو بکرے کے گوشت کے ساتھ کم داموں میں مارکیٹ لاکر فروخت کیا کرتا تھا۔ ماروکیری کو جارہا ایک شخص کتے کو کاٹ کر اس کا گوشت تھیلے میں بھرتے ہوئے دیکھ کر اپنے دوستوں کو اس کی خبر کردی ، شبہ کرتے ہوئے متعلقہ شخص کو دھرلیااور زدوکوب کرنے کے بعد اُس نے سب سچ اُگل دیا۔ یہ معاملہ پولس تھانے میں درج نہیں ہے، فی الحال دکان والا غائب ہے ، اور پھر اس کے پاس خرید کر گوشت کھانے والے اس کو ڈھونڈرہے ہیں۔
اس خبر میں کہاں تک سچائی ہے آپ خود اس بے بنیاد خبر سے پتہ لگاسکتے ہیں،
جب ملزم کو دھر لیا گیا تھا تو تصویریں نکال کر اس کوپولس تھانے میں کیوں نہیں پیش کیا گیا؟؟لکھنے والا بھی گمنام، جنہوں نے پکڑا وہ بھی گمنام اور جس شخص کو پکڑنے کا دعویٰ کیا گیا ہے وہ شخص بھی غائب...یہ مسئلہ اتنا آسان نہیں تھا کہ متعلقہ شخص کو یوں ہی چھوڑ دیا جاتا، حقائق پر غور کریں تو یہ بات تو پہلے ہی ذہن میں آجاتی ہے کہ خبر بے بنیادہے ، مگر اس طرح کی بے بنیاد خبر کو عام کرنے کا اصل مقصد کیا ہے ؟پتہ نہیں مگر یہ خبر یوں ہی شائع نہیں کی گئی ہے ، کچھ توہے جس کی پردہ داری ہے یعنی کہ دال میں کچھ کالا ہے ...
مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہم لوگ ایک سرخی پڑتے ہیں بغیر کسی جانچ اور تحقیق کے اس خبر کو سوشیل میڈیا میں ڈال دیتے ہیں اور پھر اس کو اتنا پھیلاتے ہیں اور اس پر اتنا چرچہ کرتے ہیں کہ جھوٹی خبر بھی سچ ہونے لگتی ہے اور پھر اس طرح کچھ لوگ بے بنیاد خبروں کا حوالہ دے کر پابندیوں کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں، ہمیں ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے ۔اب یہ ذمہ داری پولس اور محکہ فوڈ سیکوریٹی کی ہے کہ اس کی چھان بین کرکے عوام کے سامنے سچائی کو رکھیں۔
فکروخبرنے گلمی کے کچھ افراد سے خفیہ طور پر اس بات کو معلوم کرنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ ایسا کوئی واقعہ نہیں پیش آیا، ممکن ہے تجارت میں ان بن اور حسد کی وجہ سے اس طرح کی خبر پھیلا کر تجارت کو متاثر کرنا چاہتاہوں،۔ یا پھر کوئی نجی دشمنی بھی ہوسکتی ہے ۔ جب کہ ایک دو ذرائع سے ملی خبروں نے ہمیں بھی چوکنا کیا ہے مگر مکمل تفتیش کے بعد ہی اُن باتوں کو فکروخبر منظر عام پر لائے گا۔
اب بات سوشیل میڈیا کہ اور اس کا غلط استعمال کرنے والوں کی......کتے کے گوشت کی خبر پرانی ہوکر دم توڑ رہی تھی کہ آج ایک مسئلہ نے پھر اس خبر میں جان بھردی...ایک شخص نے ( مصلحت کے بنا پر نام نہیں لیاجارہاہے ) فکروخبر ممبئی کے نام سے کئی مہینوں سے وھاٹس اپ میں گروپ بنا کر چلارہا ہے، اس گروپ میں کسی نے گوشت کے حوالے سے یہ خبر شائع کردی کہ فلاں ہوٹل کو متعلقہ شخص گوشت دیا کرتا تھا، اب نہ گروپ فکروخرکا ہے اور نہ ہی اس متنازعہ پیغام کو بھیجنے والا فکروخبر سے وابستہ ہے ، تو مصیبت آئی تو فکروخبر کے سر، ہم نے خبر نکالی اور ممبئی کے بھٹکل جماعت کے ایک ذمہ دار سے رابطہ کرکے فوری متعلقہ شخص تک پہنچے ،مگر سوال یہ نہیں ہے کہ شخص کون ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ہم کیا کررہے ہیں،ایک مشہور تاجر اور اس کی تجارت معروف ہے تو اس طرح کے پیغامات سے تجارت پر اثر پڑتاہے جب کہ متعلقہ ہوٹل میں بکرے کا گوشت پکایا نہیں جاتا۔
ہم اس وقت ان متعلقہ افراد کو جو لوگ فکروخبر کا نام غلط استعمال کررہے ہیں اور فکروخبر کا لوگو کبھی کبھی اپنے گروپ سے جوڑ لیتے ہیں یا کبھی نام ہی فکروخبر رکھ دیتے ہیں انتباہ کرتے ہیں کہ فوری اپنے گروپ کے نام بتدیل کردیں اور فکروخبر کا لوگو بھی ہٹادیں ، بصورتِ دیگر ہمیں متعلقہ ایڈمن کے خلاف قانونی کارہ جوئی کرنی پڑے گی۔ آپ کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ فکروخبر ایک رجسٹرڈ ٹرسٹ(ادارہ) ہے اور اس کا ایک شعبہ صحافت ہے ۔ (ایڈیٹر: انصارعزیزندوی)
Share this post
