بنگلورو: 15؍ جولائی 2023 (فکروخبرنیوز) گذشتہ روز ایک خاتون کی جانب سے بس کنڈکٹر کو ٹوپی اتارنے پر مجبور کی جانے والی وائرل ویڈیو کے بعد کرناٹک میں نئے تنازعہ نے جنم لیا تھا۔ آج بی ایم ٹی سی نے اس پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ بی یم ٹی سی کو اپنے عملہ کے مذہبی چیزیں پہننے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
بی ایم ٹی سی پی آر افسرلتھا سے وارتا بھارتی کے نمائندے نے اس معاملہ پر جب رابطہ کیا تو انہوں نے پر کہا کہ ہم نے اس واقعہ کی تحقیقات کا حکم نہیں دیا ہے، جو شیواجی نگر سے اتراہلی جانے والی بس میں پیش آیا، اور نہ ہی کوئی مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ہم بھی اس خاتون کی تلاش نہیں کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید واضح کیا کہ چالیس سال بعد بھی بی ایم ٹی سی کے قوانین نیزیونیفارم ودیگر معاملات میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ بی ایم ٹی سی کی طرف سے عملے کے ارکان کو اپنے متعلقہ مذاہب کی علامتیں پہننے کی اجازت دی گئی ہے، بشمول شبریمالا آیاپا کا ہار اور ٹوپی وغیرہ۔
واضح رہے کہ کچھ روز قبل بی ایم ٹی سی کی بس میں پیش آنے والے واقعے کا ایک ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تھا جس میں کنڈکٹر کے ٹوپی پہہنے پر ایک خاتون اعتراض کررہی ہے۔ کنڈکٹر نے بڑی کوشش کے بعد اسے سمجھایا کہ وہ کئی سالوں سے ٹوپی پہنتا آرہا ہے لیکن خاتون اس کی بات سنننے کے لیے تیار ہی نہیں ہے اور وہ کنڈکٹر کے سر سے ٹوپی اتارکر ہی دم لیتی ہے۔
اس ویڈیو پر سوشیل میڈیا صارفین نے اپنا ملا جلا رد عمل ظاہر کیا تھا ، کچھ نے مسافر کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ وہ محض کنڈکٹر کو قانون کی پیروی کرنے پر مجبور کر رہی ہے، جبکہ کچھ صارفین نے خاتون پر اخلاقی پولیسنگ میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔ بعض حلقوں کی جانب سے سرکاری بسوں اور عمارتوں میں خاص مذہب کی پوجا پاٹ علامتوں کی موجودگی پر بھی اعتراض جتایا جارہا ہے لیکن اس پر کسی قسم کی کوئی اقدام کبھی نہیں کیا گیا ہے۔ اس لیے محض ایک کنڈکٹر کو ٹوپی اتارنے پر مجبور کرنا ایک طرح کی اخلاقی پولیسنگ کے زمرے میں آتا ہے۔
Share this post
