وہیں ممبر اسمبلی نے فون پر بات چیت میں کہا کہ میں وہاں سے نکل رہا تھا۔ سپاہی اچھے طریقے سے کام نہیں کر رہا تھا۔ شاہراہ پر جام لگا ہوا تھا اور جام میں پھنسے ہوئے لوگ پریشان ہو رہے تھے۔ میں نے سپاہی کو ڈیوٹی صحیح طریقے سے کرنے کے لئے کہا تھا۔ تھپڑ جیسی بات نہیں ہے۔ سپاہی جھوٹ بول رہا ہے۔ادھر ضلع کے پولیس سپرنٹنڈنٹ کیلاش چند بشنوئی نے بتایا کہ پولیس اہلکار کی شکایت کی بنیاد پر ممبر اسمبلی کے خلاف بہروڑ تھانے میں فرائض کی انجام دہی میں رکاوٹ ڈالنے کا کیس درج کرلیا گیا ہے۔ کیس کی فائل سی آئی ڈی (سی بی) کو بھجوائی جا رہی ہے۔ اگر ممبر اسمبلی کو گرفتار کرنے کی ضرورت پڑی ، تو اسمبلی اسپیکر سے اجازت لینے کے بعد کارروائی کی جائے گی۔خیال رہے کہ سابق ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر جسونت یادو پر آبروریزی کا بھی الزام لگ چکا ہے۔ ستمبر 2002 میں کاشی ناتھ مشرا کے آفس کے گیسٹ ہاؤس میں کاشی ناتھ اور ڈاکٹر گوپال بابو سکسینہ کے ساتھ مل کر اجتماعی آبروریزی کا الزام لگا تھا۔ اس وقت الور میں یہ معاملہ کافی موضوع بحث میں بناتھا۔اس دوران متاثرہ لڑکی نے الور کے ایس پی بی آر گوالا پر بھی اپنے عہدے اور حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آبروریزی کا الزام لگایا تھا۔ معاملے میں رکن اسمبلی سمیت دیگر ملزمان کو فی الحال راحت ملی ہوئی ہے۔
بھارت پاکستان کے ساتھ امن عمل کو آگے لینے کا خواہاں۔۔سشماسوراج
نئی دہلی،اسلام آباد۔09دسمبر(فکروخبر/ذرائع) بھارت پاکستان اور افغانستان سے تجارت اور صنعت کو بڑھا وا دینے کے لئے ہر ممکن تعادن دینے کو تیار ہے کی بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا کہ وقت آیا ہے کہ خطے کے تمام ملکوں کو دوراندیشی کا مظاہرہ کریں تا کہ تجارت اور دوسرے شعبوں میں تعاون بڑھ سکے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق پاکستان میں ہاٹ آف اشیاء کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرخارجہ نے کہا کہ وہ پاکستان کے ساتھ امن کو آگے لینے کا بھی خواہ ہیں لیکن ساتھ ہی یہ کہا کہ یہ کانفرنس افغانستان کے لئے بلائی گئی ہے اس لئے ہم دونوں ملکوں کو وہاں امن وامان قائم کرنے میں تعاون کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہندستان توانائی مواصلات اور دوسرے شعبے میں افغانستان کی ہرممکن مددکرنے کے لئے تیا رہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ حکومت ہند پہلے ہی افغانستان کے تعمیر وترقی کے لئے بڑے پیمانے پر مددکی ہے۔ انہو ں نے کہا کہ ہندستان اور روس مل کے چاہ بہار بندر گاہ بنا رہے ہیں تا کہ افغانستان کے تجارت کرنے میں آسانی ہو ۔ اس کانفرنس کا افتتاح پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف اور افغانستان کے صدر اشرف غنی نے مشترکہ طور پر کی ۔ اور اس کانفرنس میں ہندستان کے علاوہ 15ملکوں کے نمائندے شرکت کررہے ہیں۔ مسٹر شریف نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن وامان قائم کرنے کے لئے ہرممکن کوشش کررہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ امن سے ترقی کی راہ کھل جا ئے گی ۔ جب کہ افغانستان کے صدر نے کہا کہ ان کے ملک کو بہت سے خطرات کا چیلنج ہے۔
پاکستان کے ساتھ دباؤ میں مذاکرات کرنا بے کار
بھارتی حکومت کو مذاکرات کیلئے مجبور کیا گیا ۔۔شیو سینا
ممبئی ۔09دسمبر(فکروخبر/ذرائع)شیوسینا پاکستان کے خلاف اپنے موقف کو برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ پڑوسی ملک کے ساتھ امن کی بات چیت کرناکرنا بیکار ہے۔ یو این این مانیٹرنگ کے مطابق سینا نے الزام عائد کیا کہ این ڈی اے حکومت دباؤ میں مذاکرات کررہی ہے جس کا کوئی مطلب نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ شروع سے ہی مذاکرات بے کار رہا اور حکومت کو مذاکرات کیلئے مجبور کیا گیا ہے۔ شیوسینا لیڈر سنجے راوت نے کہاکہ افغانستان اور پاکستان میں دہشت گرد گروپ ہندوستان پر حملہ کررہا ہے اور حکومت اس پر اندھا ہے۔ اس سے قبل شیوسینا لیڈر نے بینک کاک میں ہوئے ہندوستا ن پاکستان کے قومی سلامتی مشیروں کی اعلی سطحی بات چیت کی مذمت کی ۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کے مخالف پڑوسی کے ساتھ مذاکرات کرنا بیکارہے ۔ہندوستان کو برباد کرنے کیلئے دہشت گردوں کو مالی تعاون دیا جارہا ہے۔ دریں اثناء وزیر خارجہ سشما سوراج اسلا م آباد میں منعقد ہرٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کی اورکانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ہندپاک کے درمیان باہمی رشتوں کو فروغ دینا ضرور ی ہے۔وزیرخارجہ نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات کو بڑھاوا دینا بہت اہم ہے اور دنیا دونوں معاندانہ پڑوسیوں کے درمیان بہتر رشتے کے حق میں ہے۔اپنے خطاب سے قبل سشما سوراج نے پاکستانی وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی او ر قومی سلامتی مشیر سرتاج عزیز کے ساتھ دوطرفہ مذاکرات کئے۔
مودی حکومت انتقام کی سیاست کررہی ہے۔۔ راہل گاندھی
نئی دہلی۔09دسمبر(فکروخبر/ذرائع)کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی نے نریندرمودی کے حکومت پر الزام لگا یا کہ وہ انتقامی سیاست پر یقین رکھتی ہے اور کہا کہ انہیں عدلیہ پر پورا بھروسہ ہے۔یو این این کے مطابق انہوں نے کانگریس ممبروں کی طرف سے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانو ں کی کارروائی میں خلل ڈالنے کو جائز قراردیا اور کہا کہ ان کی پارٹی کا یہ منشا نہیں ہے کہ وہ عدلیہ کونشانہ بنا ئیں بلکہ ہم حکومت کی پالیسیوں کی مخالفت میں احتجاج کررہے ہیں۔ راہل گاندھی نے کہا کہ نیشنل ہیرلڈ کیس اس کا عکاسی کررہا ہے کہ وزیراعظم کا دفتر سیاسی رہنماؤں کے خلاف انتقام لینے کی مہم چلا رہا ہے۔ حکومت ایسی ہی سیاست پر یقین رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں پورا یقین ہے کہ سچائی کا بول بالا رہے گا کیونکہ عدلیہ نے ہمیشہ سچائی کا بول بالا کیا ہے۔ کانگریس کا یہ الزام کی بی جے پی سبرامنیم سوامی کے ذریعہ سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کو مختلف کیسوں میں پھنسانا چاہتی ہے ۔ یہ کہنے پر کہ کانگریس پارلیمنٹ کی کارروائی میں رخنہ ڈالنے سے عدلیہ کو نشانہ بنا رہی ہے ۔ راہل گاندھی نے کہا کہ سبھو ں کو یہ عمل ہے کہ عدلیہ کس کے نشانے پر ہے۔ حکومت کو عدلیہ پر یقین ہی نہیں ہے۔
تیزاب معاملہ: سابق ممبر پارلیمنٹ شہاب الدین قصوروار قرار، 11 دسمبر کوسزا کا اعلان
سیوان۔9 دسمبر(فکروخبر/ذرائع) سیوان کے مشہور تیزاب معاملے میں خصوصی عدالت نے دبنگ شہاب الدین کو قصوروار قرار دیا ہے۔ کورٹ نے اپنے فیصلے میں سیوان کے اس دبنگ لیڈر اور سابق ممبر پارلیمنٹ کو سازش رچنے، اغوا اور قتل کرنے کے معاملے میں قصوروار قرار دیا ہے۔قابل ذکر ہے کہ 11 سال پہلے ہوئی اس واردات میں دو سگے بھائیوں کو اغوا کرنے کے بعد ان کا قتل کر دیا گیا تھا۔ خیال رہے کہ شہاب الدین فی الحال دیگر معاملات میں سیوان کی جیل میں ہی بند ہیں۔گیارہ سال پرانے اس معاملے میں قصوروار قرار دیے جانے کے بعد اب سب کی نظریں 11 دسمبر پر ٹکی ہوئی ہیں، جس دن عدالت اس دبنگ کو سزا سنائے گی۔خیال رہے کہ 2004 میں اس واقعہ کو لے کر بہار میں کافی ہنگامہ ہوا تھا۔ اس وقت سیوان میں دو سگے بھائیوں گریش اور ستیش کو اغوا کرنے کے بعد ان کا قتل کر دیا گیا تھا۔ اس معاملے میں شہاب الدین پر الزام لگا تھا کہ انہوں نے دونوں بھائیوں کی جانیں تیزاب سے نہلا کر لے لی تھیں۔رونگٹے کھڑے کر دینے والے اس معاملے میں عینیشاہد مقتول کا ہی بھائی راجیو روشن تھا، جس کا بھی 16 جون 2014 کو سیوان کے ڈی اے وی چوک پر گولی مار کر قتل کردیا گیا تھا۔
آدھے گھنٹے کاسفر لگتاہے دو گھنٹے کا سفر ، اسکیمیں بنانے کے بعد انہیں بھول جاتے ہیں اعلیٰ افسران
لکھنؤ۔09دسمبر(فکروخبر/ذرائع )شہر کو جام سے نجات دلانے کے لئے جتنی جدوجہد کی جارہی ہے جام کا مسئلہ اتناہی سنجیدہ ہوتاجارہاہے ۔ شاید ہی شہر کا کوئی ایسا چوراہاہو جہاں روزانہ لوگ گھنٹوں جام میں پریشان نظر نہ آتے ہوں ۔ لیکن حکمرانوں کو اس کی پرواہ نہیں ہے۔ جام سے نجات کیلئے جو تحریریں لکھی جاتی ہیں وہ چیمبروں میں پڑے دھول کھاتے رہتے ہیں۔ اسکیمیں بناکر اس کو بھول جانے والے افسر نہ تو کبھی راجدھانی کے کل حضرت گنج کی جانب دیکھتے ہیں نہ ہی سب سے زیادہ محصول دینے والی امین آباد کی گلیوں میں جاتے ہیں جہاں روزانہ جام سے ہزاروں لوگ کراہتے نظر آتے ہیں۔ حالات اتنے بدتر ہیں کہ باہری ضلعوں سے آنے والی گاڑیاں لکھنؤ آتے ہی ٹھہر جاتی ہیں۔سلطانپور روڈ ، فیض آباد روڈ ، ہردوئی روڈ سبھی ایسی جگہ ہیں جہاں روزانہ گھنٹوں جام لگارہتاہے ۔ یہ تو وہ جگہ ہے جہاں سے شہر میں لوگ داخل ہوتے ہیں۔ حالات شہر کے اندر آتے آتے اور بھی بدتر ہوجاتے ہیں ۔ جس جگہ آپ آدھے گھنٹے میں پہنچ سکتے ہیں وہاں جام کے سبب پہنچنے میں دو گھنٹے لگ جاتے ہیں ۔جام کا مسئلہ صبح لیکر شام تک قائم رہتاہے ۔چنہٹ ، مٹیاری چوراہا، رنگ روڈ ، ٹیڑھی پلیا ، اندرا نگر سیکٹر ۲۵، خرم نگر ، ، مڑیاؤں کا بھٹولی چوراہا ، کانپور روڈ ، عالم باغ میٹروروٹ ، چارباغ ، پرانے لکھنؤ کا روٹ ، ڈالی گنج پل واقع کنوینشن سینٹر ، قیصر باغ چوراہا ، ڈنڈیا چوراہا، پالیٹکنک چوراہا، چوک ، نخاس ایسی جگہ ہیں جہاں پر جام میں لوگ اگر پھنسے تو وہاں سے نکلنے میں گھنٹوں صرف ہوجاتے ہیں۔
شہر کو سنبھال رہے ہیں ۴۵۹ پولیس اہلکار : ریاستی حکومت بھلے ہی لکھنؤ کو اسمارٹ سٹی بنانے کی بات کررہے ہو لیکن اس شہر کو آمدورفت کی باگ ڈور توصرف ۹۵۴ ٹریفک پولیس اہلکارکے بھروسے ہے۔ حال یہ ہے کہ ۱۴ سال پہلے تک شہر میں ۸۸۲ ٹریفک کانسٹیبل تھے ۔ نقل وحمل کے اعداد مپر غور کریں تو ۱۰۰۲ سے پہلے تک ۲۸۸ ٹریفک کانسٹیبل شہر میں آمدورفت کو سنبھال رہے تھے ۔ اس کے بعد ۲۰۱۵ آتے آتے یہ تعداد ۹۵۴ پر پہنچ گئی ۔ اب ایسے میں چند ٹریفک ملازمین شہر کی لائف لائن کو کس طرح قابو کریں گے ۔ یہ بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔
کیاہیں جام کے خاص اسباب : ایک دور تھا لکھنؤ کی تہذیب پوری دنیا میں مشہورتھی ۔ نوابوں کی تہذیب پہلے آپ کیلئے لکھنؤ کے لوگ جانتے تھے ۔ لیکن اب جام اسی وقت لگتاہے جب کوئی آپ کی گاڑی سے پہلے نکلنے کیلئے غلط ڈھنگ سے اوورٹیک کرتاہے ۔ اس سے کئی بار گاڑیاں اس طرح پھنس جاتی ہیں کہ جام کی قطار لمبی ہوجاتی ہیں ۔ اتناہی نہیں کئی بار لوگ اپنا رعب دکھانے کیلئے سڑک کے بیچ میں گاڑی کھڑی کرکے چل دیتے ہیں اس سے بھی اکثر جگہ جام لگتاہے۔
ہیلپ لائن نمبر کو ہیلپ کی ضرورت: شہر میں ایمبولینس کو جانے کیلئے راستہ مل جائے اس کیلئے ہیلپ لائن نمبر ۲۲۵۰۔۰۰۸۳۸۴۲ اکتوبر میں جاری کیاگیاتھا ۔ لیکن اس ہیلپ لائن کی بالکل تشہیر نہیں کی گئی ۔ اس کی ابتدا اے ایس پی ٹریفک حبیب الحسن نے گرین کوریڈور کے نمبرکے نام سے شروع کیاتھا ۔ اس کا مقصد تھا کہ مریضوں کو لے جانے والی ایمبولینس کیلئے آمدورفت پولیس راستہ خالی کرائے گی ۔ تین مہینہ میں صرف ۰۵ فون ہی اس نمبر پر آئے ۔ جام میں پھنسے ہونے کے باوجود ڈرائیور اس نمبر پر فون کرکے جام سے نکلنے کیلئے فون نہیں کرتے ۔
شہر کے ان راستوں پر ہے جام کا خطرہ: چنہٹ ، مٹیاری ، رنگ روڈ ، ٹیڑھی پلیا ، اندرا نگر سیکٹر ۵۲، خرم نگر ، مڑیاؤں کا بھٹولی چوراہا ، کانپور روڈ ، عالم باغ میٹروروٹ ، چار باغ ، پرانے لکھنؤ کاروٹ ، ڈالی گنج پل ،واقع کنویشن سینٹر ، قیصرباغ چوراہا ، ڈنڈیا چوراہا ، پالیٹیکنک چواہا، چوک ، نخاس ۔
شہر میں جام سے نجات کیلئے صرف آمدورفت پولیس کی موجودگی ہی کافی نہیں ہے یہ مسئلہ تبھی سلجھے گا جب سبھی لوگ مل کر تعاون کریں گے ۔ خاص کر سڑکوں اور چوراہوں کے آس پاس بنے کامپلکس اور دکانوں کے آگے سڑک اور فٹ پاتھ کو خالی رکھنا ہوگا تاکہ اس میں پیدل مسافر چل سکیں ۔ سڑکوں پر اوورٹیک نہ کرکے اگر طریقے سے گاڑی چلائیں تو جام کا مسئلہ کافی حد تک سلجھ سکتاہے ۔ چوراہوں پر سگنل ہونے کے بعد ایک دوسرے کے آگے نکلنے کی جلدی بھی جام کاخاص سبب بنتی ہے۔ آمدورفت پولیس کی سستی اور اعلیٰ افسران کا مسلسل جام ہونے والے علاقوں کا جائزہ نہ کرنا بھی اہم سبب ہے۔ اس میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ آمدورفت قوانین کو سختی سے نافذ کرانے کیلئے سزا کو بھی درست کرنا ہوگا اور اس میں اصلاح کرنی ہوگی ۔ اس کے علاوہ ذمہ دار افسروں کو جوابدہی کا دائرہ بھی بڑھانا ہوگا ۔
تیزاب حملے کے خلاف ’آلی ‘نے نکالا مارچ
لکھنؤ۔09دسمبر(فکروخبر/ذرائع )خاموشی توڑو تشدد روکو ،چھیڑ چھاڑ مستی نہیں جنسی تشدد کے نعرے لکھی تختیاں لیکر ایسوسی ایشن فار ایڈووکیسی اینڈ لیگل انشی ایٹیو (آلی) نے منگل کو ہندی سنستھان میں حضرت گنج واقع ملٹی لیول پارک میں مارچ نکالا ۔ تیزاب حملے کے خلاف مارچ میں شامل مختلف تنظیموں طلباء و طالبات کے ساتھ غیر ملکی لڑکیوں نے بھی اس تشدد پر روک لگانے کیلئے سخت قدم اٹھانے کا مطالبہ کیا۔ خواتین کے تشدد کے خلاف بین الاقوامی ۶۱ روزہ مہم ۵۲ نومبر سے ۰۱ دسمبر کے تحت نکلے اس مارچ میں تیزاب حملے کی شکار کویتا بھی شامل رہیں ۔ اس موقع پر عالی کی قائم مقام ڈائرکٹر رینومشرا نے کہا کہ تیزاب حملہ ایک بہت ہی ظالمانہ طریقے سے جان بوجھ کر کئے جانے والا ظلم ہے۔ اس کا تباہ کن اثر متاثرہ کی جسم ،دماغ اور معاشی حالات پر بھی ہوتاہے ۔ اس دوران سبھی نے تیزاب حملہ کی شکار خواتین کا سرکاری اور نجی اسپتالوں میں مفت علاج کے قانونی عمل اور ان کی بازآبادکاری کے لئے بنی اسکیموں کے تئیں لوگوں کو بیدار کیا ۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ کے ذریعہ تیزاب حملہ کے متاثروں کو معذور کورٹ میں شامل کرنے کے حکم کا بھی خیر مقدم کیا ۔ مارچ میں ساجھی دنیا ہم سفر بریک یوتھ ، صنعت کدہ ٹرسٹ ،یش فاؤنڈیشن وغیر تنظیموں کے علاوہ اپوروا ، جیوتی ، وویک شکلا ، مالی وغیر ہ شامل ہیں ۔
آل انڈیامسلم ویمنس پرسنل لاء بورڈکے مراٹھواڑہ صدرعہدہ پرنورالنساء انصاری کاتقرر
اورنگ آباد ۔09دسمبر( فکروخبر/ذرائع )قرآن کریم کے حکم ’’ امربالمعروف اورنہی عن المنکر‘‘ پر عمل کرتے ہوئے شریعت اسلامی کی غلط تشریح کے رجحان کو روکنے اورمسلم خواتین کوقرآن وحدیث کی رو سے حاصل حقوق دلانے کے عظیم مقصد کے تحت قائم کردہ آل انڈیا مسلم ویمنس پرسنل لاء بورڈ کے مراٹھواڑہ صدرعہدہ پرمتحرک ادبی، تعلیمی وسماجی جہدکارنورالنساء انصاری کاتقرر کیاگیاہے۔ اس طرح کی اطلاع بورڈ کے ریاستی صدرندیم خان نے ممبئی صدرشیخ عائشہ کی تائیداورقومی صدرشائستہ عنبر(لکھنو) کی منظوری سے جاری کردہ تقرری مکتوب کے ذریعے دی ہے۔ واضح رہے کہ آل انڈیا مسلم ویمنس پرسنل لاء بورڈکاقیام ۲۰۰۵ء میں عمل میں لایاگیا۔تب سے مسلم خواتین کے مسائل وحقوق اوران پرڈھائے جانے والے مظالم جیسے معاملات میں اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین پرمبنی اس ٹیم نے قومی صدرشائستہ عنبر کی قیادت و رہنمائی میں موثرنمائندگی کرتے ہوئے ملک گیر سطح پر قرآنی احکامات وشریعت اسلامی پرعمل آوری میں اہم کردار اداکیاہے۔یہ بورڈ نہ صرف حقوق نسواں کاعلمبردارہے بلکہ ملکی سطح پرخواتین کے لئے مستحکم پلیٹ فارم ثابت ہواہے۔یادرہے کہ نورالنساء نایاب انصاری ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہیں۔جنہوں نے اردو میں ایم اے(پوسٹ گریجویشن) کیا ہے ۔درس وتدریس سے دلچسپی کے سبب انہوں نے ڈی ایڈ کرنے کے بعدممبئی اور اورنگ آباد کے تعلیمی اداروں میں خدمات انجام دیں۔ وہ اورنگ آبادسے شائع ہونے والے روزنامہ ہندستان کی فیچرایڈیٹربھی ہیں۔ اورنگ آباد امن کمیٹی کی رکن ہونے کے علاوہ نورالنساء انصاری متعددسماجی وادبی تنظیموں سے وابستہ ہیں۔ آل انڈیامسلم ویمنس پرسنل لاء بورڈ کی مراٹھواڑہ صدرمقرر کئے جانے پر ان سے خواہش کی گئی ہے کہ علاقائی سطح پراعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کوساتھ لے کر قرآن وحدیث اور شریعت کی رہنمائی میں مظلوم خواتین کے مسائل حل کرنے کوشاں رہیں گی۔
غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیرِ اہتمام سالانہ غالب تقریبات
۱۱،۱۲؍اور۱۳؍دسمبر۲۰۱۵ء کومنعقد
نئی دہلی ۔09دسمبر(فکروخبر/ذرائع )غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیرِاہتمام سالانہ بین الاقوامی غالب تقریبات۱۱؍دسمبر تا۱۳؍دسمبر۲۰۱۵ء میں ایوانِ غالب نئی دہلی میں منعقدہوں گی۔ ان تقریبات میں بین الاقوامی غالب سمینار:’’قرۃ العین حیدرایک منفرد فکشن نگار‘‘ کے موضوع پر منعقد کیاجائے گا۔ سمینارکا افتتاح محترمہ محسنہ قدوائی(ایم پی، راجیہ سبھا )کی افتتاحی تقریر سے ہوگا۔محترمہ محسنہ قدوائیکے ہاتھوں غالب انعامات۲۰۱۵ء کی تقسیم عمل میں آئے گی۔تقریب کی صدارت جسٹس جناب آفتاب عالم صاحب فرمائیں گے۔ سمینارکا کلیدی خطبہ معروف اردو اسکالر پروفیسرگوپی چند نارنگ پیش کریں گے۔اس دفعہ غالب ا نعامات۲۰۱۵ء پروفیسرانیس اشفاق، ڈاکٹر محمد مرسلین، جناب شفیع جاوید،جناب سلطان اختر، جناب اسلم پرویز، پروفیسر ملک زادہ منظوراحمد کو دیے جائیں گے۔یہ انعامات مبلّغ ۷۵ہزار روپے نقد ایک تمغہ اور سند پر مشتمل ہے۔ سمینارکی افتتاحی تقریب میں غالب انسٹی ٹیوٹ کی نئی مطبوعات کا رسمِ اجراء بھی ہوگا۔سمینار کی افتتاحی تقریب کے اختتام پرمشہور و معروف غزل سنگر جناب امریش مشراغالب کی غزلیں پیش کریں گے۔ اس دفعہ سمینار میں شرکت کے لیے ہندوستان کے علاوہ بیرون ممالک کے تیس سے زیادہ دانشور حضرات بھی شرکت فرمائیں گے۔ سمینار کے دوسرے روز یعنی۱۲؍دسمبر۲۰۱۵ء کوشب میں غالب آڈیٹوریم میں ایک عالمی مشاعرہ کا بھی اہتمام کیاگیاہے جس میں ملک و بیرون ملک کے نمائندہ شعرا شرکت فرمائیں گے۔اس مشاعرہ میں صدر کی حیثیت سے پروفیسر ملک زادہ منظوراحمدموجود رہیں گے۔ اور نظامت کے فرائضجناب معین شاداب انجام دیں گے۔غالب تقریبات کے اختتام پر۱۳؍دسمبر کو شام چھ بجے ہم سب ڈرامہ گروپ(غالب انسٹی ٹیوٹ) کی طرف سے اے۔آر۔کاردارکاردار کا تحریر کردہ اُردو ڈرامہ ’’غالب کی واپسی‘‘پیش کیا جائے گا ،جس کی ہدایت کے فرائض عباس حیدر انجام دیں گے۔امید کی جارہی ہے کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی بڑی تعدادمختلف علوم و فنون سے تعلق رکھنے والے حضرات کی بھی شرکت متوقع ہے۔
انجمن ترقی اردو ہند (شاخ)گلبرگہ کے زیر اہتمام
طلبہ کے لیے تحریری ، تقریری و ادبی مقابلے
گلبرگہ ؛۔09دسمبر (فکروخبر/ذرائع)جناب مجیب احمد، شریک معتمد کی اطلاع کے بموجب انجمن ترقی اردو ہند (شاخ) گلبرگہ کے زیر اہتمام ہر سال کی طرح امسال بھی شہر گلبرگہ کے ہائی اسکول تا پوسٹ گریجویشن کی سطح کے طلبہ و طالبات کے لیے مختلف ادبی مقابلہ جات کا انعقاد عمل میں لایا جارہا ہے۔ یہ مقابلہ جات20/دسمبر2015سے شروع ہو کر 4/جنوری 2016کو اختتام پذیر ہوں گے۔ تمام تعلیمی اداروں کے ذمہ داران سے خواہش کی جاتی ہے کہ وہ ان مقابلوں میں حصہ لینے کے خواہش مند طلبہ و طالبات کے نام 18/دسمبر سے قبل دفتر انجمن ترقی اردو ہند (شاخ) ، روبرو کے بی این ہسپتال، اسٹیشن روڈ، گلبرگہ روانہ فرمائیں یا جنا ب مجیب احمد (کنوینر مقابلہ جات )مددگار مدرس نیشنل ہائی اسکول گلبرگہ کے حوالے کریں۔ دفتر انجمن کے اوقات دوپہر 1بجے تا شام 6بجے تک ہیں۔تمام تعلیمی اداراجات کو بہ ذریعہ ڈاک مقابلہ جات کے شرائط کی تفصیل ارسال کی گئی ہے۔
مقابلہ جات برائے ہائی اسکول ، پی یو کالج ، ڈی ایڈ اور پالی ٹیکنک
I تحریری مقابلہ :
1) ہائی اسکول ، 20/دسمبر2015بہ روز اتوار، 11-30تا12-30دوپہر بمقام نیشنل ہائی اسکول ہفت گنبد گلبرگہ، عنوان مقابلے کے آغاز سے 15منٹ قبل دیا جائے گا۔
2) پی یو سی /ڈی ایڈ/پالی ٹیکنک20/دسمبر2015بہ روز اتوار، 11-30تا12-30دوپہر بمقام نیشنل ہائی اسکول ہفت گنبد گلبرگہ، عنوان مقابلے کے آغاز سے 15منٹ قبل دیا جائے گا۔
II تقریری مقابلہ :
1) ہائی اسکول ، 21/دسمبر2015بہ روز پیر، 2-00بجے دوپہر بمقام نیشنل ہائی اسکول ہفت گنبد گلبرگہ، عنوان :’’بچوں کی تربیت کے ذمہ دار والدین سے زیادہ اساتذہ ہوتے ہیں‘‘۔
2) پی یو سی /ڈی ایڈ/پالی ٹیکنک22/دسمبر2015بہ روزمنگل، 2-00بجے دوپہر بمقام نیشنل ہائی اسکول ہفت گنبد گلبرگہ، عنوان : ’’انٹرنیٹ ہماری بہبودی سے زیادہ تباہی کا ذریعہ ہے‘‘۔
III بیت بازی:
1) ہائی اسکول ، 27/دسمبر2015بہ روز اتوار، 11بجے صبح بمقام نیشنل ہائی اسکول ہفت گنبد گلبرگہ۔
2) پی یو سی /ڈی ایڈ/پالی ٹیکنک03/جنوری 2016بہ روزاتوار، 11-00بجے صبح بمقام نیشنل ہائی اسکول ہفت گنبد گلبرگہ۔
IV کوئز:
1) ہائی اسکول ، 28/دسمبر2015بہ روزپیر، 11بجے صبح بمقام نیشنل ہائی اسکول ہفت گنبد گلبرگہ۔
2) پی یو سی /ڈی ایڈ/پالی ٹیکنک29/دسمبر2015بہ روزمنگل، 11-00بجے صبح بمقام نیشنل ہائی اسکول ہفت گنبد گلبرگہ۔
ان مقابلہ جات کی کنوینر جناب مجیب احمد (موبائل8892166458)اور ڈاکٹر رفیق رہبر (موبائل9901085086) ہوں گے۔
مقابلہ جات برائے ڈگری و پوسٹ گرایجویشن
I تحریری مقابلہ ، 25/دسمبر2015بہ روز جمعہ ، بہ وقت11-00بجے تا12-00بجے دوپہر، بمقام بی بی رضا ڈگری کالج، گلبرگہ، عنوان کا اعلان مقابلے کے آغاز سے 15منٹ قبل ہوگا۔
II تقریری مقابلہ ، 2/ جنوری 2016بہ روزہفتہ ، بہ وقت11-00بجے صبح، بمقام بی بی رضا ڈگری کالج، گلبرگہ، عنوان کا اعلان بہ ذریعہ قرعہ اندازی ۔
III افسانہ نویسی ، 3/ جنوری 2016بہ روزاتوار، بہ وقت11-00بجے صبح، بمقام بی بی رضا ڈگری کالج، گلبرگہ موضوع ’’رشوت ستانی کا سماج پر اثر‘‘
IV غزل سرائی ، 4/ جنوری 2016بہ روزپیر ، بہ وقت11-00بجے صبح، بمقام بی بی رضا ڈگری کالج، گلبرگہ۔
ان مقابلہ جات کی کنوینر ڈاکٹر محمد افتخار الدین اختر (موبائل9739951786)اور ڈاکٹر اسماء تبسم(موبائل8105699475) ہوں گے۔
آل انڈیا اردو ایڈیٹر س کانفرنس نے روزنامہ ’اخبارمشرق‘
کے ایڈیٹر محمد وسیم الحق کے ساتھ دہلی پولیس کی ظالمانہ کارروائی کی شدید مذمت
نئی دہلی۔09دسمبر (فکروخبر/ذرائع)آل انڈیا اردو ایڈیٹر س کانفرنس نے روزنامہ ’اخبارمشرق‘کے ایڈیٹر محمد وسیم الحق کے ساتھ دہلی پولیس کی ظالمانہ کارروائی کی شدید مذمت کی ہے ۔آج یہاں جاری ایک بیان میں کانفرنس کے صدر اور سابق ممبرپارلیمنٹ وسفیر م۔افضل نے کہا کہ یہ در حقیقت اردو اخبارات کی زباں بندی کا آغاز ہے اور اس معاملے میں تمام اردو اخبارات کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ۔ انھوں نے کہا کہ اردو اخبارات اس ملک میں مظلوموں کی آواز ہیں اور انھیں دبانے کی کوئی بھی کوشش برداشت نہیں کی جائے گی ۔ واضح رہے کہ گذشتہ 3دسمبر کی رات ایک بجے دہلی پولیس کسی خبرکی اشاعت کے سلسلے میں ’اخبار مشرق‘کے مدیر کو پوچھ تاچھ کیلئے تھانہ شکر پور لے گئی تھی اور ان سے بے تکے سوالات کئے گئے تھے ۔م۔افضل نے مزید کہا کہ ملک کے موجودہ حالات میں اردو اخبارات کا عمومی رویہ تنقیدی ہے جو کہ ایک فطری ردعمل ہے،ایسے میں حکومت اردو اخبارات کا گلاگھونٹنے اور انھیں خوف زدہ کرنے کی کوشش کررہی ہے جو میڈیا کی آزادی اور اظہاررائے کے حق پر کھلا حملہ ہے ۔ واضح رہے کہ گذشتہ روز راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر غلام نبی آزادنے بھی اس معاملہ پر احتجاج کیا اور اسے حکومت کی انتقامی کارروائی سے تعبیر کیا۔م۔افضل نے مزید کہا کہ وسیم الحق اس وقت ہندوستان میں اردو کے بزرگ ترین صحافیوں میں سے ایک ہیں اور ان کی عمر 81سال ہے۔ایسے میں انھیں آدھی رات کے بعد نیند سے اٹھا کر تھانے لے جانا اخلاقی ،انسانی اور قانونی اعتبار سے قطعی غلط ہے ۔ایک معزز مدیر کے ساتھ عادی مجرموں جیسا سلوک انتہائی شرمناک اور قابل مذمت ہے ۔واضح رہے کہ اس سلسلے میں گذشتہ روز مدیر موصوف کے بیٹے اور ایوان بالا کے رکن محمد ندیم الحق نے وزیر داخلہ کو ایک تفصیلی خط لکھ کر پرزور احتجاج کیا ہے ۔م۔افضل نے وزیر داخلہ جناب راج ناتھ سنگھ کی توجہ دلاتے ہوئے کہاہے کہ وہ فوری طورپر اس معاملہ کی تحقیق کرائیں، اور دہلی پولیس سے پوچھ تاچھ کریں۔
Share this post
