بھٹکل کے مشہور ڈاکٹر جلال الدین صاحب کے انتقال پر مسجد سیدنا علی میں تعزیتی جلسہ کا انعقاد، مرحوم کے اوصاف جاننے کے لیے پڑھئے فکروخبر کی یہ رپورٹ

بھٹکل17؍ دسمبر2020(فکروخبرنیوز) شہر بھٹکل میں نصف صدی تک علاج ومعالجہ کے ذریعہ قوم وملت کی خدمت کرنے والے مشہور ڈاکٹر، ڈاکٹر محمد جلال الدین ملا علالت کے بعد پچاسی سال کی عمر میں آج فجر کے وقت انتقال کرگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ شہر بھٹکل کے مشہور اطباء میں ایک اہم نام ڈاکٹر جلاالدین صاحب کا تھا۔ صوم وصلوٰۃ کے پابندی کے ساتھ مریضوں سے خوش اسلوبی کے ساتھ پیش آتے تھے۔ ان کے انتقال پرملال پر بندر روڈ فورتھ کراس پر واقع مسجد سیدنا علی میں آج بعد عشاء تعزیتی اجلاس کا انعقاد کیا گیا جس میں مرحوم کے اوصافِ حمیدہ پر روشنی ڈالی گئی۔ علماء اور محلہ کے ذمہ داران نے ڈاکٹر صاحب کی بہت سے خوبیوں کو بیان کرتے ہوئے حاضرین کو اپنی زندگی میں ان اعمال کو اپنانے اور ایمان پر اپنی موت کے خاتمہ کی تیاری پر زور دیا۔ 
ان کے فرزند جناب وصی اللہ صاحب نے بتایا کہ والد صاحب اپنی تمام تر مصروفیت کے باوجود نماز باجماعت کے اتنے پابند تھے کہ جب یہ مسجد یہاں قائم نہیں ہوئی تھی اس وقت وہ ہمیں لے کر نماز کی ادائیگی کے لئے مسجد نور جایا کرتے تھے۔ والد صاحب نے ہماری تربیت پر بہت زور دیا۔ باوجود اس کے ہم بھائیوں کی تعلیم کانویٹ میں ہوئی تھی لیکن جس طرز پر انہوں نے ہماری تربیت کی وہ قابلِ رشک ہے۔ یہاں سے مسجد نور کی مسافت کااندازہ ہم سب کو ہے اس کے باوجود وہ ہم تمام کو لے کر نماز میں وہاں شریک ہوتے تھے۔ نہ صرف نماز میں بلکہ باجماعت نماز ادا کرتے تھے۔ اس کے بعد والد صاحب نے سوچا کہ کیوں نہ اس محلہ میں ایک مسجد تعمیر کی جائے۔جس کے لیے انہوں نے اپنے گھر کے بالمقابل واقع جگہ کے مالک سے بات چیت کی لیکن جب وہ اس بات پر راضی نہیں ہوئے تو اپنی والدہ ماجدہ سے بات چیت کے بعد مسجد کے لیے یہ اراضی وقف کردی جس پر آج یہ مسجد کھڑی ہے۔ 
مولانا شعیب صاحب بتایا کہ میں نے اس مسجد میں تیئیس سال تک خدمت انجام دی، اس دوران انہوں نے مجھے بہت عزت دی۔ ہمیشہ وہ مجھے شعب بھاؤ کے نام سے یاد کرتے تھے۔ ڈاکٹر دل کے بہت صاف تھے۔ جب کبھی اونچی آواز میں بات کرتے تو اس کے فوراً بعد معافی بھی مانگ لیا کرتے تھے۔ نماز سے ان سے تعلق کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نمازِ فجر سے پہلے مسجد آنے کا ان کا معمول تھا۔ سفر کے ایام کو چھوڑ کر وہ ہمیشہ نماز مسجد ہی میں ادا کیا کرتے تھے۔ کتنوں کا علاج انہو ں نے مفت میں کرایا۔ مولانا نے ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ آج جب ہماری گھر کی صاف ستھرائی کی لیے آنے والی خاتون سے جب ان کے انتقال کا تذکرہ ہمارے گھروالوں نے کیا تو فوری طور پر اس نے ڈاکٹر صاحب کے بارے میں کہا کہ وہ بہت ہی بہترین انسان تھے۔ میں جب بھی ان کے پاس علاج کے لیے جایا کرتی وہ مجھ سے کبھی پیسہ نہیں لیتے تھے۔ مولانا نے ڈاکٹر صاحب کے اس وصف کو اپنی زندگی میں اپنانے کی ان کے بیٹوں سے خصوصی طور پر درخواست کی۔ 
مولانا محمد یونس صاحب نے کہا کہ مرحوم کو اہل اللہ سے بڑا لگاؤ تھا، دیندار افراد سے ربط بھی تھا۔ جب بھی جماعت کے افراد کو  لے کر علاج ومعالجہ کے لیے ان کی خدمت میں جانا ہوتا تو وہ خادم کی طرح خود کو پیش کرتے اور ان کا علاج کرکے خوش ہوتے۔اس کے لیے جب بھی ہمارا جانا ہواانہو ں نے علاج مفت کرایا۔ 
مولانا محمد امین صاحب نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کی زندگی کا یہ معمول تھا کہ وہ جس طرح فجر کی نماز کے لیے اذان سے قبل مسجد تشریف لاتے تھے اسی طرح وہ عصر کی نماز کے لیے بھی اذان سے قبل ہی تشریف لاتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سوچ نہیں سکتے کہ مصروف رہنے کے باوجود وہ ان دونوں نمازوں کے لیے پابندی کے ساتھ اذان سے قبل تشریف لاتے تھے۔  ان کی تربیت کا اثر ان کے بچوں میں اس طور پر صاف نظر آیا کہ انہو ں جس انداز سے ان کی خدمت کی وہ قابلِ تعریف ہے۔  ان کی ہر ضرورت کاخیال رکھا اور اپنی والدہ ماجدہ کی وفات کے بعد ڈاکٹر صاحب کی آخری سانس تک ان کی خدمت کرتے رہے۔ 
مولانا فاروق صاحب نے ان کے اوصاف بیان کرتے ہوئے کہا کہ انہو ں نے خود کو قوم وملت کی خدمت کے لیے پیش کیا اور ان کی محبوبیت کا اندازہ ان کے جنازہ میں موجود جم غفیر سے کیا جاسکتا ہے۔ 
مولانا عبدالعلیم صاحب قاسمی نے کہا کہ ہمارا اور ڈاکٹر صاحب کا تعلق بچپن سے رہا۔ ان کی کلنک جاکر دیر تک ان سے گفتگو ہوتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب سن 1965 میں سرکاری اسپتال میں ڈاکٹر کی حیثیت سے بھٹکل تشریف لائے اور اس کے کچھ ہی سالوں بعد انہو ں نے اپنی نجی کلنک کھولی اور قوم کی خدمت کی۔ 
محلہ کے ذمہ داران میں جناب ابو القاسم صاحب اور جناب شمس الدین علی اکبرا نے بھی اپنے اپنے خیالات کے اظہار کے دوران موصوف کے اوصاف بیان کیے۔ جناب شمس الدین صاحب نے نمدیدہ آنکھوں کے ساتھ مسجد کی تعمیر کے لیے ان کی کوششوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ کبھی ہمارے درمیان باتوں میں اونچ نیچ ہوا کرتی ہے۔ وہ بھی اونچی آواز بھی گفتگو کرتے تھے اور میں بھی اسی آواز میں۔ جس کے کچھ ہی دیر بعد وہ مجھ سے مل کراس انداز میں مخاطب ہوتے تھے کہ گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔ جناب ابوالقاسم صاحب نے بھی مسجد کی تعمیر کے وقت محلہ کے دیگر افراد کی کوششوں کا تذکرہ ہوئے ڈاکٹر صاحب  کی کوششوں کا خاص طور پر تذکرہ کیا۔
امام مسجد مولانا آصف پیشمام نے نظامت کے فرائض کے دوران مرحوم کی کئی ایک اوصاف پر مختصراً روشنی ڈالی۔ 
مولانا شعیب صاحب ندوی کی دعائیہ کلمات پر یہ نشست اپنے اختتام کو پہنچی۔ 

Share this post

Loading...