بھٹکل 13؍ جون 2021(فکروخبرنیوز) جانوروں کو گھر سے زبردستی چھڑا کر لے جانے اور گھر کے چار افراد سمیت کل پانچ افراد کو بری طرح زدوکوب کرنے کا الزام پولیس پر عائد کیے جانےکا واقعہ شہر میں کچھ دنوں قبل پیش آیا ہے۔ واقعہ کے منظر عام پر آنے کے بعد کئی طرح کی باتیں گردش کررہی تھیں لیکن آج عبدالمقیت شنگیری کی جانب سے پولیس تھانہ میں شکایت درج کی گئی ہے۔
فکروخبر کو ملی جانکاری کے مطابق عبدالمقسط شینگیری نامی نوجوان گذشتہ کئی سالوں سے اپنے گھر جانور پالا کرتا ہے۔ میڈیا کو دی گئی جانکاری کے مطابق اس سے قبل ان کے گھر پر بکریوں اور مرغیوں کا پالنے کا شوق ہے اور گذشتہ تقریباً دس سالوں سے وہ بیلوں کو پالا کرتا ہے۔ منگل کے روز کچھ پولیس اہلکار بنا نوٹس اور جانکاری ان کے گھر پہنچ گئے اور جانور کھول کر لے جانے کی کوشش کرنے لگے ، جب پولیس اہلکاروں سے وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے عبدالمقسط کو زدوکوب کیا اور اسے زبردستی جیب پر بٹھایا۔
ایک اور متأثرہ شخص عبدالمقیت شینگیری کی جانب سے پولیس تھانہ مییں درج شکایت کے مطابق اسے اور اس کے بھائی عبدالمقسط کو پولیس نے تھانہ لےجاکر کر بری طرح پیٹا ۔ میرے بھائی کو پیٹ اور جسم کے دیگر حصوں میں چوٹیں آئیں جس کے بعد اسے اسپتال منتقل کیا گیا۔ اس کے بعد پولیس نے ان کے خلاف جھوٹا کیس بھی درج کردیا ہے۔ ان کے مطابق ان کے گھر میں گھس کے ان کے بھانجے محمد سالم (16) اور شفیع اللہ (18) کو بھی پولیس نے زدوکوب کردیا۔
پولیس کی اس پٹائی کے بعد پہنچنے والے چوٹیں اتنی شدید ہیں کہ عبدالمقسط کو علاج کے لیے منگلور منتقل کیا گیا ہے۔
نعیم قاسمجی نے فکروخبر کو بتایا کہ جب انہوں نے پولیس کارروائی کی وجہ جاننے کی کوشش کی تو اسے بھی پولیس گاڑی میں بٹھاکر پولیس تھانہ لے جایا گیا اور ان کے ساتھ بری طرح مارپیٹ کی گئی۔
شکایت میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ان کو رات آٹھ بجے تک پولیس تھانہ میں رکھا گیا اورسوما پولیس نے انہیں بتایا کہ یہاں کی کوئی بات اگر باہر بتائی گئی تو دوبارہ پولیس تھانہ لایا جائے گا۔
فکروخبر کی جانب سے اس معاملہ کو منظر عام پر لانے کی بار بار کوشش کی گئی لیکن شکایت درج نہ ہونے کی وجہ سے اس سلسلہ میں پوری معلومات فراہم نہیں ہوسکی۔
اس دوران نعیم قاسمجی نے ہمیں بتایا کہ معاملہ درج کرنے کے لیے بھی ایک سے زائد مرتبہ پولیس تھانہ کا چکر لگایا گیا۔ سنیچر کی رات پولیس تھانہ پہنچے لیکن آج دوپہر معاملہ درج ہوگیا۔
کیا کہتے ہیں پولیس کے اعلیٰ اہلکار؟
فکروخبر کے نمائندے نے جب اعلیٰ پولیس اہلکار سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہماری علم میں یہ بات آئی ہے اور ہم نے ایک تحقیقاتی کمیٹی ترتیب دی ہے جس کے سرابراہ دیواکر کو بنایا گیاہے جو اس سلسلہ میں عنقریب ڈائی وائی ایس پی بیلی ایپا کو اپنی رپورٹ پیش کریں گے۔
کیا کہتی ہے عوام ؟
اس واقعہ کے منظر عام پر آنے کے بعد کئی طرح کی باتیں عوام میں گردش کررہی ہیں۔
پولیس بناء نوٹس کے کسی کے گھر میں گھس کرکیا اس طرح کی کارروائی کرسکتی ہے؟ عوام یہ بھی سوال کررہی ہے کہ کیا پولیس کی بناء جانکاری کے کی جانے والی کارروائی پر کسی کو پوچھنے کا اختیار نہیں ہے؟ کیا گھر کی چہاردیواری میں گھسنے کے بعد پولیس سے وجہ معلوم نہیں کی جاسکتی؟ بناء ثبوت کے پولیس کسی کو لے جاکر کیسے زدوکوب کرسکتی ہے؟ متأثرہ افراد کو زدوکوب کیے جانے کے بعد پولیس نے رات میں انہیں رہائی کے وقت کیوں اس طرح کہا کہ یہاں کی اگر باہر بتائی گئی تو دوبارہ پولیس تھانہ لایا جائے گا؟
یہ اور اس طرح کے کئی سوالات ہیں جو عوام ایک دوسرے سے پوچھ رہی ہےاور اس کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کررہی ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ متأثرہ افراد کی جانب سے درج شکایات کے بعد ملزم پولیس اہلکاروں کے خلاف کیا کارروائی کی جاتی ہے؟
Share this post
