بھٹکل میں جنگِ آزادی میں مسلمانوں کی قربانیوں پر منعقدہ اجلاس سے مولانا محمد الیاس ندوی اور مولانا عبدالعلیم ندوی کے ولولہ انگیز خطابات ، کہا  :  آج بھی غیر مسلم مسلمانوں کی خدمات کے ہیں معترف

بھٹکل 16؍ اگست 2022(فکروخبرنیوز) مجلس اصلاح وتنظیم بھٹکل کی طرف سے یومِ آزادی کی مناسبت سے تحریکِ آزادی میں مسلمانوں کی قربانیوں کے عنوان پر ایک عوامی پروگرام شہر کے پبلک چبوترہ میں کل رات نو بجے منعقد کیا گیا جس میں مشہور عالم دین اور بانی وجنرل سکریٹری مولانا ابوالحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی بھٹکل مولانا محمد الیاس ندوی اور امام وخطیب واستاد جامعہ اسلامیہ بھٹکل مولانا عبدالعلیم ندوی کے فکرانگیز اور پر مغز خطابات ہوئے ۔ ان خطابات میں مسلمانوں کی قربانیوں کو مثالوں کے ذریعہ پیش کرتے ہوئے انہوں نے ہمیں اپنے ملک کے تئیں فکرمندی اور دانش مندی کا ثبوت دینے کی طرف دعوت دی۔ 
مولانا محمد الیاس ندوی نےاپنے خطاب کے آغاز ہی میں اس بات کی طرف حا ضرین کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ مسلمانوں کی تاریخ جنگِ آزادی سے قبل اور 1857 کے بعد شروع نہیں ہوتی بلکہ ہماری تاریخ اتنی پرانی ہے کہ ہمارے جد امجد بھی یہیں سے گذرے ، امریکہ اور یوروپ تو بعد کے ممالک ہیں۔ ہمارے صحابہ کرام کی آمد ہوئی لیکن افسوس اور تشویش اس بات پر ہورہی ہے کہ ہماری اتنی پرانی تاریخ ہونے کے بعد آج مسلمانوں سے وطن سے محبت کا ثبوت مانگا جارہا ہے۔ آج بھی آپ کسی برادرانِ وطن سے پوچھیں کہ اس ملک کی تاریخ میں مسلمانوں کا کیا رول رہا ہے تو وہ اس کا برملا اظہار کرے گا کہ ہم سے زیادہ اس ملک میں آپ کا حصہ ہے۔ مولانا نے ہندوستان کو سوپر پاور بننے سے روکے جانے کو ایک منظم سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہاں کے تعلیمی اور معاشی قوت کو توڑنے کی کوشش کی جارہی ہے جسے ہندو اور مسلم دو نوں نہیں سمجھ رہے ہیں اور ہم دشمنوں کی سازش کے آلۂ کار بن رہے ہیں۔ 
مولانا نے کہا کہ موجودہ حالات میں ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب بھی بڑی آبادی ایسی ہے جو ہماری تاریخ سے واقف ہیں لیکن سیاسی یا کسی اور وجہ سے وہ سامنے نہیں آرہے ہیں۔ مولانا نے تنظیم کے ذمہ داران کو مشورہ دیا کہ تحریری مقابلوں کے ذریعہ سے جنگ آزادی میں نمایاں کردار ادا کرنے والوں کے اہم پہلوؤں کو اجاگر کرکے انہی کی زبانی مجاہدین کی تاریخ کو سامنے لایا جاسکتا ہے۔
مولانا عبدالعلیم ندوی نے کہا کہ ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کا کردار کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اللہ کے علاوہ کسی اورکی غلامی برداشت نہیں کرتے۔ اسی لیے انہوں نے خود کے ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو بھی اس غلامی سے آزادی کے لیے جدوجہد کی۔ جس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ مسلمانوں نے اس ملک پر ہزار سال سے زائد عرصہ حکومت کی لیکن ایک بھی مثال ایسی نہیں ملتی ہے کہ انہوں نے یہاں کے لوگوں کو غلام بنایاہو۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ دوسرے مذاہب والوں نے مسلمانوں یا ان کے بادشاہوں کے خلاف کوئی تحریک نہیں چلائی ۔ بلکہ وہ اس بات پر خوش تھے کہ انہیں مسلمان بادشاہوں کی طرف سے پورے پورے حقوق مل رہے ہیں۔

   مولانا نے اپنے خطاب میں کہا کہ آزادی کی جتنی بھی لڑائیاں حکمرانوں کی جانب سے لڑی گئیں ان سب میں قیادت مسلمانوں نے کی  جس کا اعتراف انگریزوں نے بھی کیا ہے۔ اسی لیے وہ مسلمانوں کو اپنے سب سے بڑے دشمن مانتے تھے۔ مولانا نے جنوبی ہندوستان والوں کو اس بات پر فخر کرنا چاہیے کہ آزادی کی لڑائی ان کے یہاں سے شروع ہوئی ۔سولہویں صدر سے پرتگالیوں کے خلاف کیرلا میں جہاد ہوا اور اس وقت کے حالات فقہ شافعی کے ایک بڑی فقیہ شیخ زین الدین الملیباری نے اپنی کتاب میں لکھے ہیں۔

   مولانا نے اپنی تقریر میں ا س سوال کا جواب دیا کہ انگریزوں کی اس سختی سے مخالفت اس وجہ سے کی گئی کہ انہوں نے یہاں کی دولت کو اپنے ملک بھیج دیا جبکہ یہاں کے بادشاہوں نے اس ملک کی دولت ملک کی تعمیر وترقی میں صرف کیا۔ انہوں نے لوگوں پر ظالمانہ ٹیکس لاگو کیے جس کی وجہ سے کاروبار کرنا مشکل ہوگیا۔ مولانا نے ملک کی آزادی کے لیے وجود میں آنے والی تحریکات ، تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ اردو شاعری اور صحافتی میدان میں کی جانے والی خدمات کا بھی تذکرہ کیا گیا اورملک کی آزادی میں تاجروں کے رول کو بھی واضح انداز میں بیان کیا۔ مولانا نے کہا کہ صرف کہنے سے کچھ نہیں ہوتا بلکہ عملی طور پر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ 
تنظیم کے صدر ایس ایم پرویز نے بھی صدارتی خطاب میں ملک کے آزادی میں مسلمانوں کے کردار پر روشنی ڈالی۔ 

اسٹیج پر تنظیم کے نائب صدر عتیق الرحمن منیری ، جنرل سکریٹری مولانا عبدالرقیب ایم جے ندوی ، اور دیگر تنظیم کے ذمہ داران موجود تھے۔
 

Share this post

Loading...