پر امن طریقہ پر پوری کامیابی کے ساتھ اختتا م پذیر ، ہزاروں کی تعداد میں کی عوام نے شرکت
ظلم چاہے کسی بھی مذہب کے خلاف ہو ہم برداشت نہیں کریں گے : مقررین کا اظہارِ خیال
بھٹکل 23/ دسمبر 2019(فکروخبر نیوز) سی اے اے اور این آر سی کے خلاف مجلس اصلاح وتنظیم بھٹکل کے زیر اہتمام بھٹکل میں آج عظیم الشان جلسہ وجلوس کا انعقاد کیا گیا جو پوری کامیابی کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچا۔ صبح دس بجے سے قبل ہی بھٹکل اسپورٹس اکیڈمی کے گراؤنڈ میں شہر بھر سے ہزاروں کا مجمع منٹوں میں جمع ہوگیا اورٹھیک دس بجے جلوس یہاں سے روانہ ہواجو شمس الدین سرکل سے ہوتے ہوئے انجمن گراؤنڈ پہنچا جہاں عظیم الشان احتجاجی جلسہ منعقد کیا گیا۔ اس دوران محکمہئ پولیس کی جانب سے سخت پولیس کا بندوبست کیا گیا تھا۔ جگہ جگہ پولیس ہاتھوں میں لاٹھیاں اور سیفٹی گارڈ پہنے کھڑی تھی۔ جلوس کو قابو میں کرنے کے لیے ہاتھوں میں رسیاں بھی موجود تھیں لیکن جلوس کو جس طرح بھٹکل مسلم یوتھ فیڈریشن کے نوجوانوں میں قابو میں کیا اس کی مثال ملنی ناممکن نہ سہی مشکل ضرور ہے۔ پولیس بھی نوجوانوں کے اس منظم جلوس اور جلسہ کو دیکھ کر حیراں رہ گئی او ریہ کہنے پر مجبور ہوگئی کہ ہمیں تو یہاں جلوس کو قابو میں کرنے کے لیے بلایا گیا تھا لیکن یہاں تو ہمارا کوئی کام نہیں رہا۔ پرامن جلوس دیکھ محکمہ کے اعلیٰ ذمہ دار بھی انگشت بدنداں رہ گئے۔ ایک وقت تنظیم کے ذمہ داروں کو جلوس کی اجازت کے لیے کئی مرتبہ محکمہ کے دروازے کھٹکھٹانے پڑے۔ ملک بھر میں جس طرح کے احتجاجات کے دوران بعض جگہوں پر حالات نے جس طرح کا رخ اپنایا ان حالات میں محکمہ اجازت نہیں دے رہا تھا لیکن تنظیم کے ذمہ داروں نے ڈپٹی کمشنر سمیت اعلیٰ پولیس کے عہداروں کو یقین دلایا تھا کہ آپ پرسکون رہیں، کسی بھی طرح کی شکایت کا موقع آپ کو نہیں دیا جائے گا اور تنظیم کے ذمہ داروں نے اپنے اس وعدے کو سچ کردکھایا۔
جلوس میں ہزاروں کے مجمع نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈ لیے این آر سی اور سی اے اے کے خلاف اپنے غصہ کا اظہار کرتے ہوئے اس کالے قانون کو فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین نے اس کالے قانون کے خلاف سخت نعرہ بازی کی اور جم کر آزادی آزادی کے نعرے لگائے۔ مختلف علاقوں والوں کو اپنے اپنے علاقہ کے اعتبار سے ایک مخصوص نمبر بھی دیا گیا جس کے مطابق جلوس میں لوگ شامل ہوئے۔ جلوس کے درمیان میں آنے والوں کو بیچ میں شامل نہیں ہونے دیاگیا بلکہ انہیں جلوس کے سب سے آخر میں رکھا گیا۔ کل ملاکر نوجوانوں نے جس طرح اس جلوس کو پورے امن وسکون کے ساتھ اختتام تک پہنچانے میں اپنا اہم رول ادا کیا ہے اس پر تنظیم کے ذمہ داروں نے انہیں مبارکباد پیش کی۔
احتجاجی جلسہ میں مختلف مذاہب اور ذات سے تعلق رکھنے والے ذمہ داروں نے این آر سی اور سی اے اے کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے اس کالے قانون کو ملک کی جمہوریت اور دستور کے خلاف قرار دیا اور مودی اور امت شاہ کو سخت آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے انہیں جلد ازجلد ملک کو بانٹنے والے کام چھوڑ کر جوڑنے والے کام کرنے پر زور دیا۔ مقررین نے صاف لہجوں میں کہا کہ اگر آپ سے اس ملک کو جوڑنے والے کام نہیں ہوپارہے ہیں تو آپ اپنی کرسی چھوڑ دیں۔
استاد جامعہ اسلامیہ بھٹکل مولانا امحمد اقبال نائطے ندوی نے کالے قانون کے خلاف اس اقدام کو پہلی کڑی قرار دیا۔ انہو ں نے کہا کہ فوری طور پر اس قانون کو واپس نہ لینے پر ہم بہت آگے بڑھ جائیں گے اور اس وقت ہمیں روکنا ممکن نہیں ہوگا۔ ہم ہندوستان میں جس دور سے گذررہے ہیں اس دور سے کبھی نہیں گذرے ، انگریزوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرنے میں ہمارے مسلمان بھائیوں اور ہندو بھائیوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں نے ساتھ دیااور ہندوستان کو آزادی سے ہمکنار کرایا۔ انہوں نے حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ نے ہماری آزادی چھیننے کی کوشش کی اور پوری آزادی کے ساتھ اس ملک میں رہنے نہیں دیا تو ہم بہت آگے بڑھیں گے اور اس وقت ہم بھپرے ہوئے شیر کی طرح ہوجائیں گے۔ ہم آزاد پیدا ہوئے ہیں اور آزاد رہیں گے اور غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر رکھ دیں گے۔ حکومت کے اعلیٰ مناصب پر فائز رہنے والوں کی طرف سے پڑوسی ممالک میں وہاں کی اقلیتوں پر ہورہے مظالم کی بے بنیاد باتوں پر مولانا نے پلٹ وار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں دھوکہ میں رکھ کر ہمارے ذہنوں کو گمراہ کیا جارہا ہے کہ پڑوسی اسلامی ممالک میں وہاں کے ہندو بھائیوں پر ظلم ہورہا ہے، ہمیں کوئی ایک ایسی مثال پیش کی جائے،انہوں نے دعوے کے ساتھ کہا کہ کوئی ایک بھی مثال وہ پیش نہیں کرسکیں گے۔ ہمارا یہ قدم ظلم کے خلاف ہے، اگرکسی بھی مذہب کے خلاف ظلم ہوگا تو ہم برداشت نہیں کریں گے۔
جلسہ وجلوس کے کنوینر جناب عنایت اللہ شاہ بندری نے ملک کے موجودہ حالات کا سامنے رکھتے ہوئے اس قانون کے واپس لینے کا مطالبہ کیا، انہو ں نے کہا کہ آج حکومت اس طرح کے قانون بناکر عوام کو صرف پریشان کررہی ہے۔ پہلے ہی یہاں مسائل کا انبار ہے اس کو حل کرنے کے بجائے نت نئے قوانین پاس کرکے مزید عوام کو پریشانیوں سے گھیرا جارہا ہے۔ اتی کرم کے حساس موضوع پر انہو ں نے بات چیت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ پہلے عوام کی پریشانیاں دور کی جائیں۔ تنظیم کے جنرل سکریٹری مولانا عبدالرقیب ایم جے ندوی نے یہاں کے گنگا جمنی تہذیب پر روشنی ڈالتے ہوئے اس ملک کے سیکولرزم کو بہت بہی بہترین اسلوب میں حاضرین کے سامنے رکھا۔ سابق صدر تنظیم جناب مزمل قاضیا نے بھی مودی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
ضلع کے مختلف تنظیموں اور سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی پرزور طور پر اپنی بات سامنے رکھی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس کے سیکولرزم کو باقی رکھ کر یہاں کے امن وامان کی بحالی کے لیے وہ کوششیں کریں، چہ جائے کہ وہ اس کو نقصان پہنچانے کے لیے اقدامات کرے۔ انہو ں نے صاف لہجوں میں کہا کہ ہمیں کسی طرح اس قانون کو قبول نہیں کریں گے۔ جس طرح ہم نے آپ کو حکومت کے ایوانوں کو تک پہنچایا ہے ہم وہاں سے اتارنے کا ہنر بھی جانتے ہیں لہذا اقتدار کے نشہ میں چور کر کوئی ایسے اقدامات نہ کریں جس سے ملک کے تانے بانے کو نقصان پہنچے۔
پروگرام میں نظامت کے ذمہ داری جنا ب ڈاکٹر حنیف شباب نے بحسنِ خوبی انجام دی۔ نظامت کے دوران مختلف نعروں کے ذریعہ سے نوجوانوں کے لہو کو خوب گرمایا اور اس دستور کی حفاظت کی لڑائی میں تنظیم کا آخر تک ساتھ دینے میں اپنا تعاون پیش کرنے کی بات کہی۔
صدارتی خطاب میں تنظیم کے صدر جناب ایس ایم سید پرویز صاحب نے بھی اس قانون کو فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا۔
تنظیم کی جانب سے اسسٹنٹ کمشنر جناب ساجد ملا کے توسط سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ایس اے بوبڑے کے نام ایک میمورنڈ م پیش کیا گیا جو ایڈوکیٹ عمران لنکا نے پڑھ کر سنایا۔ مولانا عبدالعلیم قاسمی صاحب کی پر اثر دعا پر یہ جلوس او رجلسہ پوری کامیابی کے ساتھ اختتام کو پہنچا۔
Share this post
