جب کہ کل یہاں تنظیم میں منعقدہ اجلاس میں شمیم بانو حوالدار کو منتخب کردیا تھ گیا جنہوں نے اپنی نامزدگی اُمیدواری واپس لے لی ۔ یہاں کی سماجی اور سیاسی تنظیم مجلس اصلاح وتنظیم کی جانب سے کل منعقدہ خصوصی نشست میں صدر کے امیدوار کے لیے جناب عمران لنکا اور نائب صدر کے لیے شمیم بانو کا انتخاب عمل میں آیا تھا اور تقریباً یہ طئے مانا جارہاتھا کہ تنظیم کی جانب سے لیے گئے فیصلہ کے مطابق ہی آج انتخابات کا نتیجہ نکلے گا لیکن اب نتیجہ تنظیم کے فیصلہ کے خلاف آنے کی وجہ سے عوام میں بری بے چینی ہے اور ماننا ہے کہ یہ سماجی اتحاد کو بڑا دھچکا ہے ۔
فیصلے اور کراس ووٹنگ کے بعد عوام کا کیاکہنا ہے
عوام کی ایک بہت بڑی تعداد کا کہنا ہے کہ تنظیم کی جانب سے لیے گئے فیصلہ سے پہلے مقامی رکن اسمبلی اور پنچایت ممبران کو اعتماد میں لینا ضرور ی تھا ، لہٰذا اسی وجہ سے کچھ ممبران نے کراس ووٹنگ کی اور کچھ لوگ ووٹنگ کے لئے ہی نہیں پہنچے ، بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ تنظیم کی جانب سے منتخب کردہ اُمیدوار کو بعض لوگ اس عہدے کے لئے فی الحال تجربہ کار نہیں مانتے ، جب کہ ان کے مقابل میں موجود اُمیدوار کو جہاں تجربہ ہے وہیں ،سیاسی تعاون کے ساتھ ساتھ بنیادی مسائل کو حل کرنے کی سکت بھی ہے ، اسی لائن میں گذشتہ کئی سالوں سے ہونے کے وجہ سے وہ پنچایت کے سیاسی ہیراپھیری او ر اونچ نیچ کو جانتے ہیں، پنچایت اور بلدیہ کے انتخابات اور اس کے عہدے اس لئے اہمیت کے حامل ہیں یہ براہِ راست عام عوام کے بنیادی مسائل سے وابستہ ہوتے ہیں۔
ایک اور اہم وجہ
پنچایت اور بلدیہ میں جتنے بھی ترقیاتی کام ہوا کرتے ہیں وہ بالراست رکن اسمبلی اور ریاستی حکمراں پارٹی سے جڑے ہوتے ہیں، ایسے حالات میں ریاستی حکمراں پارٹی یہ ہرگز نہیں چاہے گی کہ ان کے دورِ حکمرانی میں ہورہے ترقیاتی کاموں کا ثمرہ کوئی اور ایسالیڈر لے جائے جو کسی اور پارٹی سے جڑا ہو(یہ سوچنے کی بات ہے) اور تیسری اہم وجہ یہ کہ جس لیڈر کو خود تنظیم نے پچھلے انتخابات میں پنچایت کا صدر بنایاتھا اس کو نہ بنانے کی کوئی بھی وجہ نہ حکمراں پارٹی کے سامنے رکھی اور نہ عوام اور ممبران کے سامنے، اس کو بھی عوام ایک بہت بڑی وجہ مان رہی ہے ۔اور جس کو اُمیدوار بنایا اس کی خصوصیات ، ان کی قابلیتیں بھی عوام کے سامنے نہیں رکھی ۔ جب کہ عام طور پر سیاست میں یہ دیکھا جاتاہے کہ اگر کسی کے مدمقابل دوسرے کو لایا جارہاہے تو اس کی قابلیتیں،اس کی صلاحیتیں ، ماضی میں کی گئی اس کی خدمتیں لوگوں کے سامنے رکھے جاتے ہیں، بحرکیف ، جتنی منھ اُتنی باتیں ۔
سب سے بڑی غلطی
جو سیاسی لیڈر آج منتخب ہوکر آئے ،ان کی پشت پناہی کس نے کی یہ لوگوں پر صاف صاف عیاں ہے اس کا تذکرہ ضروری نہیں ہاں البتہ اگر یہ مانا جائے کہ تنظیم نے کل جو فیصلہ لیا اس میں کہیں کچھ غلطی ہوئی ہے تو پھر اس فیصلے کو نہ مان کر اجتماعیت کو دھکا دینا یہ سب سے بڑی غلطی ہے۔ اجتماعیت میں لئے گئے فیصلوں کے بعد صلاحیتیں، تجربے اورقابلیتیں کوئی معنیٰ نہیں رکھتی ، کیوں کہ پنچایت کے صدر کویہ سوچنا تھا کہ اسی اجتماعیت نے ان کو بھی صدر بنایا تھا پھر وہ تجربہ کے راستے پر چل نکلے ،اجتماعیت میں لئے گئے فیصلوں میں برکت ہوتی ہے ، پھر انسان ترقی بھی کرتاہے ، جیسا کے دیکھنے میں آیا۔
اب کیا کریں؟
سیاست اسی کو کہتے ہیں، آپ جب کسی پارٹی سے منسلک ہوجاتے ہیں تو پھر آپ پارٹی کے ہی ہوجاتے ہیں، اور پھر وہ رکنِ اسمبلی جو شہر کو ترقیات کی جانب لے جانے کے لئے کوشاں ہے ، اس کے بالمقابل ہمارے فیصلے بھی ممکن ہے ترقیات کے راہ میں رکاوٹ بن جائے،آج کے واقعہ سے سبق لیتے ہوئے ،سیاست کی کچھ سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے ارادے اور منصوبے کے ساتھ، اس کو ایک سیاسی کھیل سمجھ کر قبول کرنا ہی پورے معاشرے کے لئے بہتر ہے ،بجائے اس کے ہم سوشیل میڈیا ، یا دیگر ذرائع میں اس کو لسانی تفرقہ بازی پر ڈال کر اپنی ترقیات کے پیر پر خود کلہاڑی ماریں۔
صدر و نائب صدر سے اُمیدیں
بحرکیف! ادارہ فکروخبر جالی پٹن پنچایت کے نو منتخب صدر و نائب کے صدر کی خدمت میں مبارکبادی پیش کرتے ہوئے اُمید کرتا ہے کہ اس پٹن پنچایت کے ہر حلقے کا خیال رکھتے ہوئے ترقیاتی کام کریں گے اور عام عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے میں آگے رہیں گے ، عوام کو ترقیاتی کاموں سے مطلب ہے ، اگر ترقیاتی کام نہیں ہوئے تو پھر میڈیا آپکا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔
(بشکریہ فکروخبر)
Share this post
