ایسے حالات میں پریشان عوام شکایت کریں تو کس سے کریں ، بعض لوگوں نے فکروخبر ادارے کو یہاں تک شکایت کردی کہ قطار میں اپنا نام در ج کرنے کے لیے رسوئی گیس کے سلنڈر ایجنسی کے باہر رکھے تو وہ بھی چوری ہوگئے، رسوئی گیس حاصل کرنے نمبرکا لحاظ رکھنے کے بجائے کچھ لوگ اندر ہی اندر سے روپئے زیادہ دے کر حاصل کررہے ہیں، ہمیں اس بات کا علم نہیں کہ یہ الزامات سچ ہیں یا جھوٹ لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سرکارکے اکثر کام ایسے ہی ہوتے ہیں اور اس بات سے شاید ہی کوئی دورائے رکھتا ہو۔
سوال یہ ہے کہ شہر بھٹکل میں بھارت گیس اور انڈین گیس دو ایجنسی ہیں، اور اکثر عوام انڈین گیس کے لائن سے ہی مستفید ہورہے ہیں،ابھی حال ہی میں بھارت گیس ایجنسی کے سلسلہ میں چھان بین کی گئی تو بکنگ کرانے کے بعد ایسی کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی ۔ مگر انڈین گیس ایجنسی میں رسوئی گیس کی قلت کیا معنیٰ رکھتی ہے، بلکہ حالیہ مرکزی حکومت کے اعلان کے مطابق بلکہ کل ہی کا اعلان ہے کہ سال میں 9رسوئی گیس کے بجائے 12رسوئی گیس پر سبسیڈی ملے گی، اور پھر اب آدھار کارڈ کا بھی چکر نہیں رہا ، یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ کو رسوئی گیس حاصل کرنے کے لئے آدھار کارڈ ضروری ہے۔ جب یہ سب سہولیات سرکار نے مہیا کردی ہے تو گیس ایجنسی کا یہ کہنا کہ مرکزی ایجنسی سے رسوئی گیس کی فراہمی اُتنی نہیں ہورہی ہے جتنا کہ بکنگ کرایا جارہاہے تو گیس ایجنسی کے مالک پر غصہ کرنا بے جا ہوگا، مگر گیس ایجنسی مالک سے یہ ضرور دریافت کرسکتے ہیں کہ وجہ کیا ہے۔ اور کل شام اسی سوال کے لیے شہر کی مشہور و معروف تنظیم مجلس اصلاح و تنظیم نے رفعت ایجنسی کے مالک جناب سعد اللہ صاحب کو دعوت دے کر ہنگامی میٹنگ کا انعقاد کیا ۔ یہاں اُن سے بار بار فون کرنے کے باوجود جواب نہ دئے جانے پر اعتراض جتایا گیا۔اور رسوئی گیس کے سلسلہ میں عوام کو درپیش مسائل اور ان کی جانب سے کئے جانے والے تمام اعتراضات کو سامنے رکھا گیا تو جناب سعد اللہ کا ایک تو جواب یہ تھا کہ بنگلورکے گیس پلانٹ میں خرابی پیدا ہوئی ہے اور صرف شیموگہ کاپلانٹ کام کررہا ، میرے پاس اگر پروڈکٹ ہی نہ پہنچ پا رہا ہوں تو میں کہاں سے تقسیم کروں اور کس کس کو دوں ،موصوف نے یہ بھی کہہ ڈالا کہ شک کی بنیاد پربالراست کمپنی سے رابطہ کیا جاسکتاہے۔ انہوں نے اس دوران وضاحت بھی کی کہ آپ تنظیم کی جانب سے خط لکھ سکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ آفس کے پاس اتنی بھیڑ ہوتی ہے کہ کنٹرول کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ بار بار فون کرنے کے باوجود نہ اٹھانے کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس سلسلہ میں تھوڑی سی لاپرواہی ہوتی ہے، جب بھیڑ زیادہ ہوتی ہے تو کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا ہے اسی لیے
ہمارے ملازمین مصروف رہنے کی وجہ سے فون ریسیو نہیں کرپاتے ۔
سب اعتراضات اپنے جگہ پر صحیح اور جوابات بھی، مگر ایجنسی مالک بالآخر گیس ایجنسی کی قلت پر ابھی تک توجہ کیوں نہیں کی، عوام کی جانب سے شکایتیں موصول ہونے کے باوجود ضروری تھاکہ فوری ایجنسی کو شکایت نامہ لکھتے اور کہتے کہ ، بھٹکل سے جڑے تمام علاقوں میں ایسی کوئی پریشانی نہیں تو صرف بھٹکل کے ساتھ ہی اس طرح کا برتاؤ کیوں کیاجارہاہے ؟؟ہر ایجنسی کے اوپر ایک واٹچ اورانسپیکشن کمیٹی ہوا کرتی ہے ضروری تھاکہ ان کو شکایت نامہ لکھتے ، معلومات ویب سائٹ کے ذریعہ سے بھی لی جاسکتی ہیں۔
لوگوں کو اب یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ شاید صارفین کی تعداد زیادہ ہونے اور ایک ہی ایجنسی سے اس طرح بڑی ذمہ داری نہ پورا کئے جانے پر دوسری ایجنسی کے لئے شہر میں اجازت دی گئی ہو۔ یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ دوسرے ایجنسی کے افتتاح کے موقع پر شہر کے ہی صارفین کے رسوئی گیس کو روک کر دوسری ایجنسی کو دیا جارہا ہو۔ سب کچھ ممکن ہوسکتاہے۔ مگر ایجنسی کے لوگ یہ بھول رہے ہیں کہ ان کے آپسی تجارتی بیر، اور سیاسی کھیل کے دوران عام عوام پریشان ہورہی ہے ۔ ہمیں اُمید ہے کہ رفعت ایجنسی کے مالک مجلس اصلاح و تنظیم میں کئے گئے وعدے کے مطابق فوری اس مسئلہ کو حل کرتے ہوئے عوام کے لئے راحت کا پیغام سنائیں گے اور پھر رسوئی گیس کی کھپت کے اہم وجوہات تک پہنچ کر اس سلسلہ میں اعلیٰ افسران کو شکایت کریں گے تاکہ دوبارہ اس طرح عوام پریشانی کے دلدل میں پھنس نہ پائیں۔
Share this post
