ان خیالات کااظہار کل ہند پیامِ انسانیت کے جنرل سکریٹری واستاد التفسیر مدرسہ ضیاء العلوم رائے بریلی حضرت مولانا محمد سید بلال حسنی ندوی نے کیا ۔ وہ کل رات بعد نمازِ عشاء انجمن گراؤنڈ میں جامعہ اسلامیہ کی طلباء کی تنظیم اللجنۃ العربیہ کی طرف سے منعقدہ دو روزہ سیرت النبی مقابلہ میں شریک بھٹکل و مضافات اور ریاست و بیرون ریاست سے شریک عوام کے ایک جمِ غفیر سے خطاب فرمارہے تھے ۔ تاحد نگاہ پھیلے ہوئے شرکاء کے منظر کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ پورا شہر اُمڈ کر انجمن گراؤنڈ میں پہنچ چکا ہے، شرکاء سے مخاطب ہوکر مولانا نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی جانب سے عطا کردہ پیغام کو انسانیت تک پہنچانے کے لئے تکالیف کے پر خطر ڈگر سے گذرنا پڑا۔ اسی کی تبلیغ کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ستایا گیا ، ذہنی اور جسمانی اذیتیں دی گئیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان والوں کو بھی ان اندوہناک اور خطرناک تکالیف سے نبردآزما ہونا پڑا ، آپ کے چچا حضرت حمزہ کا کلیجہ چبایا گیا ،ان کی برداشت اور صبر صرف اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے تھا ۔مولانا نے عوام کو غور و تجسس کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے ۔پیغام کی حقیقت کو دل میں بٹھانے کی ضرورت ہے۔ سیرت کو جب دل سے اپنایاگیااور عملی میدان میں کود پڑے تو اللہ نے وہ مقام عطا کیا جس کے سلسلہ میں وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ کسریٰ وقیصر کی مثالوں کو پیش کرتے ہوئے مورخین کے حوالہ سے مولانا نے کہا ان کی تہذیب وتمدن اس قدر سڑچکا تھا کہ دعوتوں میں ایک غلام کو لایا جاتا اور اسے لٹکاکر اس کے کپڑوں میں آگ لگائی جاتی اور اس آگ کی روشنی میں وہ دعوتیں نوش فرماتے ۔ اس بے روح اور وحشی تہذیب وتمدن کو آپ صلی اللہ کی سیرت نے ایسے پلٹا کہ وہ قابلِ تقلید بن گئے اور ہمارے لیے نمونہ دکھلاگئے ۔ آج ہمارا معاشرہ بھی تباہی وبربادی کی طرف جارہا ہے ، حقوق دبائے جارہے ہیں ،میراث کی تقسیم میں دھاندلیاں ہورہی ہیں، بھائی بہنوں کا حق دبائے ہوئے ہے ۔ ہم قرآن کے پیغام کو سیرت کی روشنی میں دیکھیں کہ جب شریعت نے بہن کو حق دیا ہے تو ہم کون ہوتے ہیں جو ان کے حق کو روکے رکھیں ، قرآن کریم نے میں میراث کی تفصیلات اس انداز میں وضاحت کے ساتھ بیان کی گئیں ہیں کہ اس طرح دوسرے احکامات کی وضاحت نہیں کی گئی ۔ یہ صورتحال اس وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ ہم نے شریعت پر عمل کرنا چھوڑدیا اور ہم اپنے نفس کے متبع بن گئے ۔خواہشات نفس کو سیرت نبوی کے سانچے میں ڈھالنے کی ضرورت ہے اور یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کی علامت ہے ، اسی کو کامل ایمان کا درجہ قرار دیا گیا ۔ اس موقع پر مولانا عبدالعلی فاروقی صاحب نے واقعات و تمثیلات سے کے حوالے سے کہا کہ موجودہ حالات میں کوئی بھی شخص غلام کہنے کوپسند نہیں کرتا، چاہے وہ دنیا کے اعتبار سے حقیر ترین کام کیوں نہ کرتا ہو لیکن دنیا میں ایک ایسی ہستی بھی پیدا ہوئی جن کا غلام کہلوانے کے لیے بڑا سے بڑا آدمی بھی غلام کہنے کو فخر محسوس کرتا ہے وہ ہستی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی ہے ۔ غرض پوری دنیا اسی کے دم سے قائم ہے اور پوری دنیا میں بسنے والے اسی کے غلام ہیں ۔ مولانا نے مثال بیان کرتے ہوئے خوبصورت انداز سے کہاکہ ہم بھی کہتے ہیں کہ ہم غلامِ مصطفی ہیں ، کہناآسان ہے لیکن اصل چیز ان کی باتوں کو ماننا ہے ۔ مولانا نے کئی ساری مثالوں کے ذریعہ بیان کیا کہ کبارِ صحابہ نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر خواہش کو پورا کرنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیا اور اسی چیز نے ان کو دنیا کی امامت کے لائق بنایا ۔ ہمیں بھی ان چیزوں کو اپناکر زندگی گذارنے کی ضرورت ہے تب جاکر ہم غلامِ مصطفی بن سکتے ہیں۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے استاد التفسیر مولانا سید محمد صہیب حسینی ندوی نے فرمایاکہ آدمی کو اللہ سے محبت کرنی ہے او رکی اطاعت کرنی ہے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنی پڑے گی تو کائنات تمہاری ہوجائے گی ، فرشتے دعائیں دیں گے ، سمندر کی مچھلیاں دعائیں کریں گی ۔ اپنی زندگی کو نبی کے سیرت کے مطابق بنائیے ۔ زبان سے انکار کرو گے تو کافر ہوجاؤ گے ، اعضاء وجوارح سے انکار کرو گے تو فاسق ہوجاؤ گے ۔ مولانا نے حدیث کی روشنی میں کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے پر انسان جنت میں جائے گا اور زبان سے ، اعضاء جوارح سے انکار کرنے پر آدمی جنت میں نہیں جاسکے گا ۔ لہذا دو روز سے جو اجتماعات ہورہے ہیں ، جو سیرت النبی کی نشستیں منعقد ہورہی ہیں ایسا نہ ہو ہم نے سنا اور عمل نہیں کیا ۔ ایسا عملی نمونہ پیش کرنے کی ضرور ت ہے دیکھنے والا تقلید کرے اورکہنے پر مجبور ہوجائے کہ سنت دیکھنی ہے ، اسلام کو سمجھنا ہے تو بھٹکل چلے جاؤ ، کرناٹک چلے جاؤ ، حالات ایسے بدلنے کی ضرورت ہے کہ ہم صحابہ کرام کے نمونہ پر ہوں ، ہماری عورتوں فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نمونہ بنیں ۔ واضح رہے کہ اس جلسہ میں دیگر مہمانوں نے بھی اپنے خیالات کااظہار کیا ۔ امتیازی نمبرات حاصل کرنے والوں نے مظاہرہ پیش کیا ۔ استقبالیہ کلمات مہتمم جامعہ مولانا عبدالباری ندوی نے پیش کیے ۔جلسہ کے انتظات کی ذمہ داری لبیک نوائط ایسوسی ایشن بھٹکل نے اچھے انداز سے نبھائی اور شرکاء کو بہترین تواضع کا اہتمام کیا ۔ دعائیہ کلمات پر اس جلسہ کا اختتام ہوا ۔ شہر واطراف سے کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کرتے ہوئے علماء کرام کے خطابات سے مستفید ہوئے
![]()
![]()
Share this post
