بریگزٹ مکمل، برطانیہ یورپی یونین سے علیحدہ ہو گیا

لندن : یکم فروری 2020(فکروخبر /ذرائع) برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کا کہنا ہے کہ بریگزٹ ایک نیا سحر ہے اور یہ موقع ہماری دوبارہ حاصل کردہ خودمختاری کو عوام کی خواہشات کے مطابق استعمال کرنے کا ہے۔ برطانوی وقت کے مطابق جمعے کی شب گیارہ بجے بریگزٹ مکمل ہو گیا ہے اور برطانیہ یورپی یونین کا حصہ نہیں رہا ہے۔

بریگزٹ کی حمایت اور مخالفت کرنے والے مظاہرین ملک بھر میں مختلف تقریبات میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ وزیراعظم بورس جانسن ان رہنمائوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کی مہم چلائی تھی۔بریگزٹ کے مخالفین نے جمعے کی شام برطانوی وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ ٹین ڈاؤنگ سٹریٹ کے باہر احتجاجی مارچ بھی کیا تھا۔

ادھر بریگزٹ کے حامیوں نے جشن منانے کے لیے پارلیمنٹ سکوئر میں ایک ریلی نکالی ہے اور اس سکوئر کو یونین جھنڈوں سے سجایا گیا ہے۔ ڈاؤنگ سٹریٹ پر ایک گھڑی نے بریگزٹ کے لمحے تک کاؤنٹ ڈاؤن بھی کیا۔ تاہم لندن کے معروف گھنٹا گھر بگ بن سے رات گیارہ بجے اھنٹی نہیں بجائی گئی کیونکہ گھنٹا گھر میں مرمت کا کام جاری ہے۔

برطانیہ 47 سال تک یورپی یونین کا حصہ رہا ہے۔ بریگزٹ کے مکمل ہوتے ہی اب برطانوی شہریوں کو کچھ تبدیلیوں کا سامنا ہے۔ بیشتر یورپی قوانین، بشمول شہریوں کی آزادانہ آمد و رفت، اس سال 31 دسمبر تک نافذ رہیں گے۔ سال 2020 منتقلی کا سال ہے۔

برطانیہ کی کوشش ہے کہ اس دوران وہ یورپی یونین کے ساتھ ایک فری ٹریڈ اگریمنٹ (تجارتی معاہدے) طے کر لیں جیسا کہ یورپی یونین کا کینیڈا کے ساتھ ہے۔ آج برطانوی کانیہ کا اجلاس بھی شمال مشرقی برطانیہ کے شہر سندرلینڈ میں ہوا جو کہ بریگزٹ کے حوالے سے ریفرنڈم میں برطانیہ کی علیحدگی کے حق میں ووٹ ڈالنے والا پہلا شہر تھا۔

ادھر برسلز میں یورپی پارلیمنٹ کے باہر سے برطانوی جھنڈا ہٹا دیا گیا ہے اور اس کی جگہ یورپی یونین کا جھنڈا رکھ دیا گیا ہے۔ یوروپی کمیشن کی صدر ارسلا وان ڈیر لین نے کہا ہے کہ برطانیہ اور برسلز تجارتی مذاکرات میں اپنے مفادات کے لیے لڑیں گے۔ انھوں نے برطانیہ کے ان شہریوں کو خراج تحسین پیش کیا جنھوں نے 'یوروپی یونین میں شراکت کی اور اسے مضبوط تر بنایا' اور کہا کہ یورپی یونین میں برطانیہ کا آخری دن 'جذباتی' تھا۔

فرانسیسی صدر ایمینوئل میکخواں کا کہنا ہے تھا کہ 'آدھی رات کو، 70 برسوں میں پہلی بار کوئی ملک یورپی یونین سے علیحدہ ہوگا۔ "یہ ایک تاریخی الارم سگنل ہے جو ہمارے ہر ملک میں سنا جانا چاہئے۔ جبکہ یوروپی کونسل کے صدر چارلس مچل نے متنبہ کیا کہ 'برطانیہ جتنا زیادہ یورپی یونین کے معیارات سے ہٹ جائے گا، اس کے پاس مشترکہ مارکیٹ تک رسائی اتنی ہی کم ہوگی۔

جبکہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اس حوالے سے ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ 'مجھے خوشی ہے کہ برطانیہ اور یورپی یونین نے بریگزٹ معاہدے پر اتفاق کیا ہے جو برطانوی عوام کی مرضی کا احترام کرتا ہے۔' ان کا کہنا تھا کہ 'جیسا کہ برطانیہ ایک نئے باب کی جانب بڑھ رہا ہے تو ہم اس کے ساتھ اپنے مضبوط، نتیجہ خیز اور خوشحال تعلقات کو مستحکم اور جاری رکھیں گے۔'

برطانیہ میں واشنگٹن کے سفیر ووڈی جانسن کا کہنا ہے کہ بریگزٹ کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی 'مکمل حمایت' حاصل تھی۔ برطانیہ میں امریکی سفیر جانسن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ برطانیہ کے ساتھ امریکہ کا 'خصوصی رشتہ' اس دلچسپ نئے دور میں برقرار رہنے کے ساتھ ساتھ مزید مضبوط ہو گا۔

2016 میں برطانیہ میں ریفرنڈم میں 52 فیصد ووٹرز نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں جبکہ 48 فیصد نے اس کی مخالفت میں ووٹ ڈالے تھے۔ تاہم بریگزٹ پر عملدرآمد کیسے کرنا ہے، اس سوال پر پارلیمنٹ میں خوب کھینچا تانی جاری رہی۔

گذشتہ سال دسمبر میں بورس جانسن نے قبل از وقت انتخابات میں اس وعدے پر 80 سیٹیوں کی اکثریت حاصل کر لی کہ وہ بریگزٹ کو مکمل کر کے رہیں گے۔ تاہم رائے شماری کے جائزے ابھی بھی یہی دیکھا رہے ہیں کہ اس معاملے پر برطانوی عوام شدید منقسم ہے۔

source: bbc.com/urdu

Share this post

Loading...