بابری مسجد یوم شہادت حیدرآباد میں امتناعی احکام(مزید اہم ترین خبریں )


 

عثمانیہ یونیورسٹی میں بیف فیسٹول روکنے پولیس چوکس

کیمپس میں امن کی برقراری کیلئے احتیاطی اقدامات ، طلباء تنظیمیں اپنے موقف پر اٹل

حیدرآباد /5 ڈسمبر ( ذرائع/پی ٹی آئی ) عثمانیہ یونیورسٹی میں طلباء کے حریف کیمپس کے درمیان تصادم ٹالنے کیلئے پولیس نے چوکسی اختیار کی ہے ۔طلباء تنظیموں نے ایک ہی دن بیف اور پورک فیسٹول منانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ پولیس نے کیمپس میں ایسے کسی بھی سرگرمی کی اجازت نہ دینے کا اعلان کیا جس سے نقص امن کو خطرہ پیدا ہو ۔ ڈپٹی کمشنر پولیس ایسٹ زون اے رویندر نے کہا کہ کیمپس میں امن و امان کی برقراری کیلئے پولیس آئندہ 8 دنوں تک چوکسی اختیار کرے گی ۔ عثمانیہ یونیورسٹی کیمپس میں آئیندہ ہفتہ مجوزہ فیسٹولس منانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ پولیس نے کسی بھی طلباء تنظیموں اور گروپوں کی جانب سے کیمپس میں کوئی بھی فیسٹول منانے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ڈی سی پی نے طلباء سے خواہش کی کہ وہ امن کی برقراری کو یقینی بنانے کیلئے پولیس سے تعاون کریں ۔ کیمپس میں امن و امان کی برقراری کو یقینی بنانے تمام اقدامات کئے جارہے ہیں ۔ بائیں بازو طلباء تنظیموں نے اعلان کیا ہے کہ وہ کیمپس میں 10 ڈسمبر کو کسی بھی صورت میں  بیف فیسٹول  منائیں گے ۔ اسی دن عالمی یوم انسانی حقوق بھی منایا جارہا ہے ۔ طلباء کی دوسری تنظیموں نے اعلان کیا ہے کہ وہ اسی دن کیمپس میں متوازی طور پر پورک فیسٹول منائیں گے ۔ اس سے طلباء کے دو گروپس میں ٹکراؤ کا اندیشہ ہے ۔ بیف فیسٹول کو تنازعہ میں گھسیٹتے ہوئے بی جے پی کے رکن اسمبلی راجا سنگھ نے کہا کہ وہ بیف فیسٹول کو کسی بھی صورت میں روک دیں گے ۔ انہوں نے اس دن  6چلو یونیورسٹی   مارچ نکالنے کا بھی اعلان کیا ہے ۔ کیمپس میں تعلیمی اور ریسرچ سے مربوط سرگرمیوں کی اجازت ہے اس سے ہٹ کر کوئی کام ہونے نہیں دیا جائے گا ۔ اسی دوران اقلیتی کمیشن آندھراپردیش اور تلنگانہ کے چیرمین عابد رسول خان نے کہا کہ وہ حکومت تلنگانہ کو مکتوب لکھ کر راجہ سنگھ کے خلاف کارروائی کرنے کی خواہش کریں گے ۔ راجہ سنگھ نے اس مسئلہ پر مبینہ طور پر اشتعال انگیز بیانات دئے ہیں ۔ اقلیتی کمیشن نے راجہ سنگھ کے اس بیان کا سخت نوٹ لیا ہے کہ بیف فیسٹیول منانے والوں کو وہ ہلاک کریں گے ۔


 

ایمرجنسی ایک غلطی : مخالف سکھ فسادات میں جو ہوا غلط تھا

ہندوستان ٹائمز لیڈر شپ چوٹی کانفرنس میں کانگریس لیڈر جیوتر آدتیہ سندھیا کا اعتراف

نئی دہلی5 ڈسمبر ( فکروخبر/ذرائع ) ملک میں ماضی میں نافذ کردہ ایمرجنسی کے تعلق سے ایک غیر معمولی اعتراف میں کانگریس لیڈر جیوتر آدتیہ سندھیا نے آج کہا کہ یہ ایک غلطی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ 1984 کے مخالف سکھ فسادات کے دوران بھی جو ہوا وہ غلط تھا ۔ سندھیا نے ہندوستان ٹائمز لیڈر شپ چوٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم کیوں نہیں یہ اعتراف کرسکتے کہ ایمرجنسی کے دوران جو کچھ بھی ہوا وہ غلط تھا ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس پر آگے پیچھے ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ اس بات سے قطع نظر کہ کس حکومت نے ایمرجنسی نافذ کی تھی ہمیں یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ صحیح صحیح ہے اور غلط  غلط ہے ۔ سندھیا نے یہ کہا کہ ملک کے عوام کا یہ احساس ہے کہ کسی ایک پارٹی یا دوسری پارٹی کے اقتدار میں ملک میں جوکچھ ہوتا رہا ہے اس پر بہت زیادہ تو تو میں میں ہوچکی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر کہیں کچھ غلط ہوتا ہے تو وہ غلط ہی ہے چاہے اس کا تعلق ان کی اپنی پارٹی ( کانگریس ) سے ہو یا کسی اور پارٹی سے ہو ۔ اگر کچھ صحیح ہے تو وہ صحیح ہے اور اگر کچھ غلط ہے تو وہ غلط ہے ۔ اسی مقام پر کسی سیاستدان کو احتساب سے گذرنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی پارٹی سے الحاق در اصل انسانیت اور انسانی اقدار کے بعد آتا ہے ۔ ایمرجنسی کے تعلق سے ان کے خیالات ظاہر کرنے کی خواہش پر سندھیا نے کہا کہ اس بات سے قطع نظر کہ اس وقت کیا ماحول تھا اور اس ضرورت کے پیش نظر کہ یہ مسئلہ کو اس کے حالات کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے وہ اس نتیجہ پر پہونچتے ہیں کہ اگر آپ اپنے ملک کو ملک کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو جمہوری اقدار کیلئے اٹھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایسے ہر اقدام کی مخالفت کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں اظہار خیال اور تقریر کی آزادی متاثر ہوتی ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کیلئے ایمرجنسی غلط تھی ۔ سندھیا نے یہ ریمارکس ایسے وقت میں کئے ہیں جب سینئر کانگریس لیڈر و سابق وزیر فینانس پی چدمبرم نے یہ اعتراف کیا تھا کہ ماضی میں سابق وزیر اعظم آنجہانی راجیو گاندھی کے دور حکومت میں سلمان رشدی کی کتاب شیطانی کلمات پر امتناع عائد کرنے کا فیصلہ بھی غلط تھا ۔ انہوں نے اس سشن میں عدم رواداری کے مسئلہ پر این ڈی اے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔


چنائی میں بارش سے 137 سالہ روزنامے کی اشاعت معطل

چنائی۔ 05 دسمبر (فکروخبر/ذرائع) ملک میں 137 سال تک مسلسل اشاعت کے بعد شہر میں شدید بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے بدھ کو ’دا ہندو‘ روزنامہ چینئی شہر سے شائع نہیں ہو سکا۔ذرائع ابلاغ کے مطابق سنہ 1878 سے روزانہ شائع کیے جانے والا یہ اخبار بدھ کو نہیں چھاپا گیا تھا کیونکہ ملازمین کو پرنٹنگ پریس کے دفتر میں رسائی حاصل نہیں ہوئی خبار کے ناشر این مرالی نے بتایا کہ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے۔این مرالی نے کہا: ’مارائیملائی نگر کے علاقے میں قائم ہمارے پرنٹنگ پلانٹ میں ملازمین کو رسائی حاصل نہ ہو سکی۔ پرنٹنگ پریس کا پلانٹ بہت بڑا ہے اس لیے ہم نے اسے شہر کے باہر قائم کیا تھا۔ اگر ہم اخبار کو شائع بھی کر پاتے تو مجھے نہیں لگتا کہ ہم اسے شہر میں تقسیم کر پاتے۔



بھارتی طلبا کے ’کمر توڑ‘ بستوں کے خلاف مہم

ممبئی ۔ 05 دسمبر (فکروخبر/ذرائع) ریاست مہاراشٹر میں محکمہ تعلیم نے حکام نے یہ جاننے لیے لیے سکولوں کے اچانک معائنوں کا سلسلہ شروع کیا ہے کہ طالب علموں کے بستے زیادہ بھاری تو نہیں ہیں۔ حکام اس ہفتے سے اس بات کی پڑتال شروع کریں گے کہ آیا اسکول، بستوں کے وزن کے حوالے سے بنائے گئے نئے قوانین کی پاسداری کر رہے ہیں۔جولائی میں حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ سکول کے بستے کا وزن طالب علم کے اپنے وزن سے کسی صورت 10 فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔اس حوالے سے بستوں کا وزن کم کرنے کے سلسلے میں 44 تجاویز پیش کی گئی تھیں۔حکام کا کہنا ہے کہ بھاری بستے اْٹھانے سے بچے تھک جاتے ہیں اور یہ اْن کی ریڑھ کی ہڈی اور جوڑوں میں درد کا سبب بن رہے ہیں۔ان تبدیلیوں کے نفاذ کے لیے آخری تاریخ 30 نومبر دی گئی تھی۔بستوں کا وزن کم کرنے کے اقدامات کے سلسلے میں بچوں کو اپنی درسی کتب آپس میں مل بانٹ کر پڑھنے کے لیے کہا جارہا ہے یا پھر حکام سے ایسا نظام الاوقات مرتب کرنے کو کہا گیا ہے جس سے ہر دن کم سے کم کتابوں کی ضرورت پڑے۔اس کے علاہ سکولوں کو اپنی سہولیات میں بہتری لانے کے لیے کہا گیا ہے اور وہاں لاکرز کی تیاری جیسی تجاویزدی گئی ہیں۔


مولانا ابوالکلام آزاد کا نام قومی لیڈران کی فہرست سے غائب

ریاستی حکومت پہلے کی طرح ان کی یومِ پیدائش منائے ، ورنہ ہم سڑکوں پر اتریں گے: نواب ملک

ممبئی۔05دسمبر(فکروخبر/ذرائع)ریاستی حکومت کے ذریعے ایک نیا جی آر جارہی ہوا ہے جس میں کن کن قومی لیڈران کی یومِ پیدائش کو منایا جائے گا ان کی فہرست ہے، مگر اس فہرست سے مجاہدِ آزادی مولانا ابولکلام آزاد کا نام غائب ہے۔ جبکہ اس سے قبلمرکزی وزارت برائے انسانی وسائل کی جانب سے جاری ایک حکم نامہ میں ۱۱؍نومبر کو مولانا آزاد کی یومِ پیدائش ’یومِ تعلیم‘ کے طور منانے کا حکم دیا گیا ہے۔ راشٹر وادی کانگریس پارٹی کے قومی ترجمان نواب ملک نے حکومت کے اس فیصلے پر آج یہاں سخت اعتراض کیا اور مطالبہ کیا کہ حکومت سابقہ روایت کے مطابق مولانا آزاد کی یومِ پیدائش ’یومِ تعلیم‘کے طور پر منائے ، ورنہ ہم سڑکوں پر اتریں گے۔انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کی جانب سے ۱۱؍نومبر کو مولانا آزادکی یومِ پیدائش کو یوم تعلیم کے طور پر منانے کے جی آر کے ہوتے ہوئے ریاستی حکومت نے ۳۰نومبر کو ایک نیا جی آر جاری کیا ہے ۔ اس جی آر میں ان تمام قومی لیڈران کے نام ہیں ریاستی حکومت جن کی یومِ پیدائش منائے گی۔ لیکن اس فہرست سے مولانا آزاد کا نام غائب ہے۔ ہم سرکار سے سوال کرتے ہیں کہ کیا مرکزی حکومت نے اس کا حکم دیا ہے؟ اگر مرکزی حکومت نے ایسا کرنے کے لئے کہا ہے تو مرکزی وریاستی دونوں حکومتیں مل کر ریاست میں آر ایس ایس کا ایجنڈا لاگو کرنے کررہی ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ جس طرح ۱۱؍نومبر کو مولانا ابوالکلام آزاد کی یومِ پیدائش ’یومِ تعلیم‘ کے طور پر منایا جاتارہا ہے، اسی طرح آئندہ بھی منایا جائے ، ورنہ ہم سڑکوں پر اتر کر حکومت کے اس متعصبانہ فیصلے کے خلاف احتجاج کریں گے۔

Share this post

Loading...