لہذا ان آوارہ چیتوں کے خوف سے بنگلور کے 130سے زائد سکولوں کو عارضی طور پر بند کر دیا گیا۔یاد رہے کہ بھارت کے جنگلات میں 14000چیتے آزاد پھرتے ہیں اکثر اوقات ان میں سے چند شہروں اور آبادی والے علاقوں کا رخ بھی کر لیتے ہیں اور انسانوں پر حملہ کر دیتے ہیں۔
مسلسل خشک موسم کے بعد وادی میں برفباری اور بارشیں شروع
سرینگر جموں شاہراہ بند،شہر کی سڑکیں زیرآب آنے سے لوگوں کو عبور و مرور میں مشکلات
سرینگر۔11فروری(فکروخبر/ذرائع) چلہ کلان اور اکسے بعد چلہ خورد کے ابتدائی 10روز مسلسل خشک رہنے کے بعد وادی کشمیر میں برفباری اور بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے جو جمعرات کی شام دیر گئے تک جاری رہا ۔اس دوران محکمہ موسمیات نے اگلے 24گھنٹوں تک بالائی علاقوں میں برفباری اور میدانی علاقوں میں مزید بارشوں کی پیش گوئی کی ہے ۔بانہال اور قاضی گنڈ میں شدید برفباری اور بارشوں سے پیدا ہوئی پھسلن کے بعد انتظامیہ نے جمعرات کی صبح سے ہی سرینگر جموں ہائے وے پر ٹریفک کی نقل وحرکت روک دی ۔ذرائع ابلاغ کے مطابق محکمہ موسمیات نے پہلے ہی 10فروری کے بعد وادی میں برفباری اور بارشوں کی پیشن گوئی کی تھی اور اس پیش گوئی کے عین مطابق بدھ کی شام سے ہی وادی کے بالائی علاقوں میں برفباری جبکہ میدانی علاقوں میں بارشوں کا تازہ سلسلہ شروع ہوا۔شہر سرینگر میں بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب سے ہی تیز بارشوں کے بعد جمعرات کی صبح سے وقفے وقفے سے برفباری کا سلسلہ شروع ہوا تاہم سرینگر میں دن بھر زیادہ تر بارشیں ہی جاری رہیں جس کے نتیجے میں بیشتر مقامات پر سڑکیں زیر آب آگئیں اور راہگیروں کو عبور و مرور میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔اس دوران شہر سرینگر کے علاوہ وادی کے دیگر اضلاع سے بھی برفباری اور بارشوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں ۔محکمہ موسمیات کے مطابق بالائی علاقوں میں برفباری جمعرات کو جاری رہی جس کے نتیجے میں سرینگر جموں شاہراہ کو ٹریفک کی دو طرفہ آمد ورفت کیلئے بند کردیا گیا۔سیاحتی مقام پہلگام ،گلمرگ اور سونہ مرگ میں کئی فٹ برفباری سے سردی کی شدت میں مزید اضافہ ہوا ہے جبکہ میدانی علاقوں میں یخ بستہ ہواؤں سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔بانڈی پورہ،سوپور ،کپوارہ،بارہمولہ ،بڈگام ،پلوامہ شوپیان کولگام اور اننت ناگ کے میدانی و بالائی علاقوں میں اچھی خاصی برفباری ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں ۔اس دوران محکمہ موسمیات نے اگلے24گھنٹوں تک وادی میں موسم تر رہنے اور بالائی علاقوں میں برفباری جبکہ میدانی علاقوں میں مزید بارشوں کی پیشگوئی کی ہے ۔اس دوران تازہ بارشوں اور برفباری سے اگرچہ وادی میں درجہ حرارت میں قدرے بہتری واقع ہوئی ہے تاہم یخ بستہ ہواؤں کے نتیجے میں لوگوں کو کئی طرح کی مشکلات پیدا ہوگئی ہیں ۔اس دوران شہر سرینگر میں تیز بارشوں سے ایک بار پھر نکاسی نظام ناکارہ ہوگیا ہے اور لالچوک سمیت شہر کے اندرونی و مٖضافاتی علاقوں میں سڑکیں زیر آب آگئی ہیں ۔نٹی پورہ،چھانہ پورہ ،سرائے بالا ،نمائش کراسنگ اور کرن نگر میں اکثر سڑکیں زیر آب آنے سے لوگوں کو عبور ومرور میں کافی دقتیں پیش آرہی ہیں ۔اس دوران بالائی علاقوں میں سڑکوں سے برف فوری طور نہ ہٹائے جانے سے بھی لوگ مشکلات کے شکار ہوگئے ہیں ۔کپوارہ،شوپیان ،اور اننت ناگ کے بالائی علاقوں میں سڑکوں سے برف نہ ہٹائے جانے کے نتیجے میں کئی علاقوں کا زمینی رابطہ منقطع ہوگیا ہے اور لوگ مشکلات میں مبتلاء ہوگئے ہیں۔
مظفر نگر فسادات میں متاثرین کو انصاف ملنے میں رکاوٹیں حائل
گواہ مکرجانے سے عدالتی کارروائی میں تاخیر،متاثرین مایوسی کے شکار
سرینگر۔11فروری(فکروخبر/ذرائع)ریاست اتر پردیش کے مغربی ضلع مظفرنگر کے قصبے کاندھلا سے کچھ فاصلے پر ہی امن کالونی ہے۔ یہاں اقبال اپنے گھر میں اندھیرے میں بیٹھے ہیں۔ بہت دیر سے ان کی کالونی میں بجلی نہیں ہے۔اقبال 12 سالہ آس محمد کے والد ہیں جسے دو برس قبل ہونے والے پر تشدد مذہبی فسادات کے دوران ہلاک کردیا گیا تھا۔ان فسادات کے دوران اقبال پگانا میں رہتے تھے جہاں سنہ 2013 میں زبردست تشدد کے واقعات ہوئے تھے۔ آس محمد کے ساتھ ہی بلوائیوں نے ان کی چچی رجّو کو بھی قتل کر دیا تھا۔اس واقعے کے بعد اقبال اور ان کے بھائی کا خاندان بھاگ کر کاندھلا آ گیا۔ مظفر نگر کی عدالت میں اس واقعے میں دو الگ الگ لوگوں کے قتل کو ایک مقدمہ بنایا گیا اور مجموعی طور پر 13 افراد کو ملزم قرار دیا گیا جبکہ ایک نابالغ سمیت کل 11 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ان دونوں مقدمات میں تمام ملزمان عدالت سے اس لیے بری کر دیے گئے کیونکہ مقدمے کے گواہ گواہی دینے کو تیار نہیں ہیں۔ اقبال کے گھر اب بھی ماتم کا سماں ہے۔اقبال کا کہنا ہے ’اب تو جو فیصلہ کرنا ہوگا وہ اللہ ہی کرے گا، ہم کچھ نہ کریں گے۔ جو ہو رہا ہے، اللہ کی مرضی سے ہی ہو رہا ہے۔ اس عدالت نے بری کر دیا تو کوئی نہیں۔ غلطی کی سزا تو ملے گی۔ یہاں نہیں تو اس عدالت میں۔‘وہیں ان کی بیوی سلمیٰ بھی اس فیصلے سے کافی ناراض ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کا مقدمہ پہلے ہی کمزور کر دیا گیا تھا۔ ’جو لوگ عدالت میں ہماری طرف سے لڑ رہے تھے، انھوں نے ہی مقدمہ کچھ کمزور کر دیا۔‘اقبال کا کہنا ہے کہ گواہوں کے منحرف ہونے سے سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔ انھوں نے کہا ’اس سے بڑھ کر بوجھ کیا ہوگا جب اولاد کو باپ کے سامنے ہی قتل کر دیا جائے؟ یہ جو ہمارے وکیل ہیں، فسادات کے سارے کیس انھیں کے پاس ہیں۔ اب انھوں نے کیا کیا، کیا نہیں، ہمیں تو پتہ نہیں ہے۔‘ظاہر سی بات ہے کہ سارا الزام کیس کے سرکاری وکیل پر ہے۔ اْن پر یہ الزام ہے کہ عدالت مقدمات کی صیحی پیروی نہیں کی ہے۔سرکاری وکیل ساجد رانا سے جب بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ عدالت میں گواہوں کے مکرنے کو وہ نہیں روک سکتے۔وہ کہتے ہیں ’اب اگر عدالت میں گواہ مکر رہے ہیں تو میں کیا کر سکتا ہوں۔ میری تو کوئی غلطی نہیں ہے۔‘ ساجد رانا کا الزام ہے کہ خود ان کے مکلوں نے ملزمان کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا ہے۔سماجی تنظیموں کے رپورٹ کے بعد ریاستی حکومت نے نچلی عدالت کے فیصلے کے خلاف اعلی عدالت میں اپیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک آئندہ قند روز میں اپیل دائر بھی کر دی جائے گی لیکن قانون کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جب گواہ نچلی عدالت میں ہی بدل گئے تو پھر وہ اعلی عدلیہ میں بھی زیادہ کچھ نہیں بول پائیں گے۔
مسلمانوں کو مسلک کے نام پر لڑانے کی سازش کے خلاف انتباہ
نئی دہلی۔11فروری(فکروخبر/ذرائع )میں ان لیڈروں نے کہاکہ جو عناصر ماضی میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو آپس میں لڑاکراپنے سیاسی مقاصد پورے کرتے رہے ہیں، اب انھوں نے مسلک اور مکتب فکر کے نام پر مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑانے کی خطرناک سازش رچی ہے اور اس کا م کیلئے سرکاری خزانے کامنہ کھول دیا گیا ہے۔ان لیڈران نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ یہ خطرناک پالیسی نہ توملک کے مفاد میں ہے اورنہ ہی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے حق میں ہے۔انھوں نے عام مسلمانوں کو اس سازش سے ہوشیار رہنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی شورش سے ملک میں جو ماحول پید اہوگا ،اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ صوفیاکی آڑ لے کر مسلکی انتشار پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں اور بعض مسلم گروہوں کو دہشت گردی کا ہم نوا بتارہے ہیں ، انھیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ تصوف اور صوفیا کرام کا ہندوستان میں خدمت خلق ، تعلیم اخلاق و امن اور انسانوں کے درمیان محبت قائم کرنے میں بڑا اہم رول رہا ہے اورانھوں نے بلاتفریق مذہب وملت انسانوں کی خدمت کی ہے۔افسوس کہ مسلکی انتشار اور خلفشارپھیلانے کیلئے ان کے نام کا غلط استعمال کیا جارہا ہے۔سرکردہ لیڈران نے اپنے بیان میں داعش کے نام پر مسلم نوجوانوں کی حالیہ گرفتاریوں پربھی اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ داعش کا ہندوستانی مسلمانوں پر کوئی اثر نہیں ہے اور جن لوگوں کو اس الزام میں گرفتار کیا گیا ہے، ان کے بارے میں شفافیت سے کام لیا جائے اور انسانی حقوق کی تنظیموں اور مسلم کمیونٹی کے معتبر لیڈروں کے سامنے وہ ثبوت پیش کئے جائیں جن کی بنیاد پر انھیں گرفتار کیا گیا ہے۔بیان پر دستخط کرنے والوں میں آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے سابق صدر اور ملی گزٹ کے ایڈیٹر ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں ،جماعت اسلامی ہندکے سکریٹری محمد احمد ، ناظم عمومی مرکزی جمعیت اہل حدیث مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی، جمعیت علماء ہند کے سکریٹری مولانا عبدالحمید نعمانی ،مسلم پرسنل لاء4 بورڈ کے ممبر مفتی عطاء4 الرحمن قاسمی ،ڈاکٹر تسلیم رحمانی صدر مسلم پولیٹکل کاؤنسل ، مولانا عبدالوہاب خلجی اسسٹنٹ جنرل سکریٹری ملی کاؤنسل اور مسلم مجلس مشاورت کی مجلس عاملہ کے رکن اور روزنامہ جدید خبر کے ایڈیٹرمعصوم مرادآبادی شامل ہیں۔
Share this post
