ہوم اسٹے، پب معاملہ نے ساری دنیا میں ہنگامہ مچادیا تھا۔ ابھی تک ضلع کے حکمران اس کالک کو اپنے پیشانی سے صاف بھی نہیں کرپائے تھے کہ گذشتہ ایک سال سے منگلور و اُڈپی ضلع اور اس کے دیہی علاقوں میں پیش آرہے سلسلہ وارقتل و آبروریزی کے واردات نے مذکورہ ضلعوں کی ترقیات کو کوسوں دور دھکیل دیا ہے ۔آگے میں اپنی تحریر میں انہیں واقعات کا تذکرہ کررہاہوں جو کسی نہ کسی طور پر میڈیا کے ذریعہ عوام کے سامنے آئیں یا پھر عوام کے اشتعال کی وجہ سے یہ خبریں اخبارات میں شائع ہوئیں۔ مذکورہ ضلع جو کہ کرناٹک کے ان اضلاع میں شمار کئے جاتے ہیں جو تعلیم یافتہ مانے جاتے ہیں وہاں جرائم کس طرح چپکے چپکے ڈیرہ جمارہے ہیں اور سماج کے لئے ناسور بنتے جارہے ہیں آپ خود اندازہ لگائیں۔
21جون: رات:11:30بجے، منی پال یونیورسٹی کے ایک میڈیکل طالبہ کو رکشہ ڈرائیور سمیت تین ہوس پرستوں نے کیمپس لائبریری کے صحن سے اغوا کرکے اُٹھا لے گئے جس کی چیخ اب بھی ضلع کے نکڑ پر سنی جاسکتی ہے۔
17جون : بیلتنگڈی تعلقہ کے منڈاجے سومن تڈکا نامی علاقے سے پی یوسی کی دلت طالبہ کو بیچ راستے میں روک کر اغواء اور پھر آبروریزی ،زہے قسمت یہ طالبہ زندہ بچ جانے کے بعد پولس کے سامنے بیان درج کئے جانے پر رمیش پوجاری نامی شخص کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔
3جون : موڈبدری کے ہوسا بیٹو ، شیڈاگری نامی علاقے میں محکمہ جنگلات کی جانب سے کھودے گئے گڑے میں پورنما نامی عورت کی لاش دریافت ہوئی تھی ، پولس کی تحقیقات کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آگئی تھی کہ موڈبدری میں میک اپ آرٹسٹ جگدیش شیٹی نامی ملزم نے اپنے ہی دکان میں اس کو قتل کرنے کے بعد جنگل کے اس گڑھے میں پھینک دیا تھا۔ محبت اور جسمانی رشتہ کے بعد پورنما نے جب شادی کا مطالبہ کیا تو اس کو یہ سز ابھگتنی پڑی تھی،۔ اس سلسلہ میں گرو، آمریش ، بھاسکر، پروین تورو نامی ملزمین کو گرفتارکرلیا گیا ہے۔
25فروری: بنٹوال تعلقہ کے کلڈکا ، بالتلا دیہات کی سومیا نامی لڑکی کی آبروریزی کے بعد بربریت سے قتل کرکے راستے کے پڑوس میں واقع ایک ندی میں لاش پھینکی گئی تھی۔ یہ لڑکی غربت کی وجہ سے منی پال میں ملازمت کررہی تھی ،چھٹی میں جب گھر لوٹ رہی تھی تو اس کے ساتھ یہ معاملہ پیش آیاتھا، اس کا الزام ستیش نامی ملزم پر لگایا گیا تھا جو پولس تحقیق کررہی ہے۔
27دسمبر2012: بنٹوال کے کنیان نامی علاقے کی لڑکی منگلور کے ایک گھر میں ملازمہ تھی، اس کو بہلا پھسلا کر لے جانے والے ملزمین اجتماعی آبروریزی کے بعد کاسرگوڈ کے کمبلے نامی علاقے میں چھوڑ کر فرار ہوگئے تھے، اسی رات لاوارث مدہوشی کے حالت میں پڑی لڑکی کو کو دیکھ کر ایک ہوس پرست رکشہ ڈرائیوراس کے ساتھ اپنی ہوس پوری کی تھی۔ واقعہ منظر عام پر آیا اور پھر رکشہ ڈرائیور سمیت باقی ملزمین بھی دھر لئے گئے۔
09اکتوبر: اجرے ایس ڈی ایم کالج کی طالبہ سوجنیا دھرمستلا کے نیتراوتی ندی کے قریب سے گذررہی تھی کہ اس کو وہاں سے اغوا کرلیا گیا ۔ اور آبروریزی کے بعد قتل کرکے پھینک دیا گیا۔ مقامی کنڑا اخباروں کا ماننا تھا کہ دکشن کنڑا ضلع میں پیش آئے تمام آبروریزی اور قتل کے معاملات کو حل کرلئے گئے سوائے سوجنیا معاملے کے اس معاملہ میں ابھی تک کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا جب کہ پولس ایک ذہنی معذور شخص کو اس معاملہ میں گرفتار کرکے بیلتنگڈی پولس واردات پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی تھی۔
اب حالیہ آبروریزی واقعہ کو ہی لے لیجئے ، پولس کو ابھی تک ملزمین کا سراغ نہیں، جائے واردات کا پتہ لگ چکا ہے ، ملزم کی تصویر جاری کردی ، رکشہ کی نوعیت اور حلیہ کا پتہ لگ گیا مگر ملزمین ابھی تک پولس کی پہنچ سے دور ہیں، یہ وارداتیں نہ صر ف مذکورہ اضلاع کو بلکہ اپنے پڑوسی اضلا ع کے لیے متعدی جراثیم کی طرح ہیں جو پھیلتے ہی جاتے ہیں، واردات کے پیش آنے کے بعد چھان بین کرکے عوام کے اشتعال کے پیشِ نظر ملزمین کو گرفتار کرنا فرائض کی ادائیگی تو ہو جائے گی مگر اس طرح کے حرکات آئندہ جاکر پیش نہ آئے ایسا کیا لائحہ عمل ہے محکمۂپولس کے پاس؟جائے واردات کی تصاویر پر ایک نظردوڑائیں تو اب بھی وہ اپنی وحشت کی داستاں بیان کررہی ہیں...!
Share this post
