اقلیتی کمیشن کے چرمین عبدالعظیم آر ایس ایس کی زبان بولنے لگے ، کہا :  ہندوستان میں 99 فیصد مسلمان ہندو ہیں

بنگلورو 30/ دسمبر 2019(فکروخبر /سالار) ہندوستان میں بسنے والے 99فیصد مسلمان ہندو ہیں۔ یہ جملہ کسی کٹر ہندو لیڈر یا آر ایس اسے سے وابستہ کسی رہنما نے اگر کہا ہوتا اور وہ خبرو ں میں آتا تو مسلمانوں کے حلقوں میں اس قدر بے چینی نہ ہوتی کیونکہ مسلمان اس طرح کے بیانات دینے والوں کی فطرت سے بخوبی واقف ہیں اور ایسے لوگوں کے ان بیانات کو وہ نظر انداز کردیتے ہیں لیکن یہ بیان اپنے سیاسی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے کسی ایسی شخصیت کی طرف سے آئے جو خود کو مسلمان کہے او رریاست کے بر سراقتدار طبقہ میں مسلمانوں کی قیادت کرنے کا دم بھرنے کی کوشش بسیار کرے تو بہت زیادہ دکھ ہوتا ہے۔ یہ کوشش کرناٹک اقلیتی کمیشن کے چیرمین عبدالعظیم نے کی ہے۔ بی جے پی کی طرف سے شہرت قانون اور این آر سی کے متعلق شہر میں منعقد ایک پروگرام کی صدارت مل جانے پر شاید عبدالعظیم جذبات میں اس قدر مغلوب ہوگئے کہ انہو ں نے اس جملہ کا استعمال کردیا۔ اس پروگرام میں صدارتی تقریر کا ویڈیو خود عبدالعظیم نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر شیئر کیا ہے۔ شاید عبدالعظیم نے آر ایس اسے کے سربراہ موہن بھاگوت کے بیان پر مبنی تاریخ کے مطالعہ کے اثر میں آکر اس حقیقت کو فراموش کردیا ہے کہ پیغمبر اول حضرت آدم کا اس روئے زمین پر ورود ہندوستان میں ہوا۔ ان سے ساری انسانیت آگے بڑھی۔ اس اعتبار سے 99فیصد نہیں صد فیصد انسان مسلمان ہیں۔ یہ ہر مسلمان کا عقیدہ ہونا چاہیے۔ اس عقیدے کی پابندی کرنے کے بجائے وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہندوستان کے 99فیصد مسلمان ہندو ہے او ریہ جتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ آدم اور حوا، ایشور اور پاروتی ہیں۔ چوکہ وہ بی جے پی میں ہیں اس لیے شہریت قانون کا جس طریقے سے دفاع کرنا چاہیں کریں لیکن اپنے کام کو آسان بنانے کے لیے ایسے دلائل پیش کرنے کی کوشش نہ کریں جس سے سماج کے بہت بڑے طبقے کے جذبات مجروح ہوں۔ شہریت قانون او راین آر سی کے متعلق عام ہندوستانیوں میں جس طرح کے شکوک وشبہات ہیں ان کو دور کرنے کے لیے اگر بی جے پی کیطرف سے کس طرح کی مہم شروع کی گئی ہے او راس مہم میں شکوک وشبہات کا ازالہ کرنے کے لیے عبدالعظیم کی اہلیت کا اعتراف کرکے بی جے پی نے اگر انہیں صدارت دی ہے تو انہیں اس قانون کے بارے میں عام شہریوں کے ذہن میں اٹھنے والے سوالوں کے جواب پیش کرنے چاہیے۔ بی جے پی کی قیادت اگر عظیم کو سرکاری عہدہ دیا ہے تو اس لیے دیا ہے کہ برائے نام ہی سہی ریاست کے انتظامیہ میں ایک مسلم نمائندے کو دکھایا جاسکتے۔ اس صدرت میں عظیم پر یہ ذمہ داری ہے کہ مسلمانوں کے جو جذبات واحساسات ہیں وہ بی جے پی کی قیادت او رحکومت تک پہنچائیں لیکن ان کی تقریر سننے کے بعد یہ احساس ہوا کہ وہ اس کا الٹاہی کررہے ہیں۔ حکومت تک مسلمانو ں کے مسائل اور احساسات کا پہنچانے کے بجائے وہ حکومت کے اس قانون کے بارے میں سمجھانے لگے ہیں جس پر اعتراض کرتے ہوئے سارے ملک میں لوگ سڑکوں پر اتر چکے ہیں۔ جن کی آواز سننے کے بجائے ان کو دبانے کے لیے طاقت کا سہارا لیا جارہا ہے۔ اس قانون کے خلاف احتجاج کرنے والو ں کو قید میں ڈالا جارہا ہے ان پر مقدمے تھوپے جارہے ہیں۔ کرناٹک کے ہی منگلو رو میں اس قانون کے خلاف احتجاج کے دوران پولیس فائرنگ میں دو نوجوانوں کی موت ہوگئی، کئی او رزخمی ہوئے یہاں تک کہ ان نوجوانوں کی ورثاء کو معاوضہ دینے کا اعلان کرنے کے بعد حکومت نے معاوضہ دینے سے انکار کردیا۔ اقلیتی کمیشن کے چرمین عبد العظیم جو خود کو اس تقریر میں ریاست کا ایک آئینی ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ انہیں ریاستی حکومت سے اس کا استفسار کرنے کی فر صت نہیں ملی کہ منگلور کے مہلوکین کو معاوضہ دینے کا اعلان کرنے کے بعد ادا کرنے سے کیوں انکار کیا گیا۔ شاہد اسلئے کہ وہ سی اے اے اور این آر سی کو جائز قرار دینے کے لیے جاری بی جے پی کی مہم میں مصروف ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں نے اپنی اس تقریر میں یہ بھی جتانے کی کوشش کی کہ مسلمانو ں میں اقتدار پر آنے کی اہلیت نہیں ہے اور اگر انہیں کوئی مقام یا مرتبہ مل جاتا ہے کہ وہ صرف خوش قسمتی سے مل جاتا ہے۔ شاید اپنے اس بیان سے انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مسلمانوں میں وہ صلاحیت نہیں کہ بڑے بڑے عہدوں پر رہ سکیں۔ اس کے لیے انہو ں نے جواب حیدر علی نے اپنے فرمان پر انگوٹھا لگایا۔ اسی رات ان کے وزیر پور نیا نے انہیں انگوٹھا لگاتے ہوئے دیکھا تو انہو ں نے ماتھے کی لکیروں کی اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حکمرانی کے لیے قسمت ہونی چاہیے۔ انہو ں نے باتوں باتوں میں یہ بھی کہہ دیا کہ جو لوگ شہرت قانون کی مخالفت کررہے ہیں انہو ں نے قانون کو پڑھا ہی نہیں یا شاید پڑھنا انہیں آتا نہیں۔ 
 

Share this post

Loading...