مولانا نے اپنے خطاب میں مسلم نوجوانوں کو ہندوستان کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے اور ہمارے اسلاف کی قربانیوں کو جاننے پر زوردیتے ہوئے کہا کہ آج ہمیں اپنی تاریخ کے بارے میں علم نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے اسلاف کی قربانیوں کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے جس کی وجہ سے اس ملک کو حاصل کرنے کے لیے ہمارے اسلاف کی کوششوں کی ہمیں صحیح قدر نہیں ہے، اس ملک کو بنایا ہے تو مسلمانوں نے اور یہاں کئی ایک طرح کی تحریکیں چلاکر یہاں قابض ہونے والے انگریزوں کو یہ ملک چھوڑنے پر مجبور کیا ہے۔ ایک دو نہیں ، ہزاروں علماء اور دانشورانِ قوم نے اس ملک کے لیے اپنی جاں توڑ قربانیاں پیش کی ہیں تب جاکر یہ ملک ہمیں حاصل ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آزادئ ہند سے پہلے بھی اس ملک کی ایک شان تھی ، حتیٰ کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہندوستان ایک جانا پہچانا ملک تھا اورکئی احادیث میں اس کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ مولانا نے کہا کہ جب یہاں اسلام آنے کے ایک مدت بعد حالات کچھ اس طرح کے پیدا ہوئے تو ہمارے علماء اور دانشوران نے یہ محسوس کیا کہ اس ملک میں حالات اسلام کے لیے سازگار نہیں ہیں تو انہوں نے بڑی دور اندیشی کے ساتھ دوبارہ یہاں اسلام کو زندہ کرنے کے لیے کوششیں شروع کردیں۔ جب انگریزوں نے یہاں قبضہ جمایا اور ایک منظم سازش کے تحت اس ملک پر قبضہ کے لیے یہاں کے عوام کا جینا دوبھر کرنے لگے تو سب سے پہلے حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس ملک کے دار الحرب ہونے کا فتویٰ دیا ، اس کے بعد شاہ عبدالعزیز صاحب اور مولانا ثناء اللہ صاحب نے اپنے فتوؤں کے ذریعہ اس کو تقویت بخشی اور کئی ایک تحریکوں کے زور پر انگریزوں کو یہاں سے نکلنے کی کوششیں جاری رہیں۔ مولانا نے ہندوستان کی آزادی کے لیے کی جانے والی ہمارے اسلاف کی قربانیوں کے تذکرہ سے اسلاف کی قربانیوں کو جاننے اور مستقبل میں ہمارے حقوق کے ساتھ جینے کے لیے کوششیں کرنے کی نصیحت کی ۔ انہوں نے اس بات کا بھی تذکرہ کیا کہ کانگریس کا وجود اس وقت ہوا جب انہوں نے محسوس کیا کہ ایک خاص طبقہ کے لوگ اس ملک کے لیے جدوجہد کررہے ہیں تو انہوں نے انگریزوں کا ساتھ دیتے ہوئے کئی ایک تحریکوں کو ناکام کرنے کی کوششیں کیں۔اور اس کے بعد مسلمانوں ہی کی جانب سے کی جانے والی کوششوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس ملک کے اقتدار پر قبضہ کیا ۔ مولانا نے ہندوستان کی تاریخ پر اپنا تفصیلی محاضرہ پیش کرتے ہوئے ہندوستان کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے اور اس کی روشنی میں ہمیں اپنے مسائل حل کرنے کی ترغیب بھی دی۔ ملحوظ رہے کہ اس سے قبل استاد تفسیر مولانا محمد الیاس ندوی نے مولانا نے تعارف پیش کیا ۔ نظامت کے فرائض استاد حدیث مولانا خواجہ معین الدین ندوی نے بحسنِ خوبی انجام دئیے ۔ جلسہ میں کثیر تعداد میں علماء کرام اور طلباء جامعہ کی ایک بڑی تعداد موجود تھے۔ جلسہ کا آغاز شعیب قاضی کی تلاوتِ کلام سے ہوا اور نعت حذیفہ قاضی نے پیش کی ۔ دعائیہ کلمات پر یہ نشست اپنے اختتام کو پہنچی۔
Share this post
