بھٹکل 26؍ مارچ 2019(فکروخبر نیوز) ملک بھر میں پیش آرہے ارتداد کے تشویشناک واقعات کی سنگینی علماء کے سامنے رکھنے اور انہیں اپنے فرضِ منصبی سے آگاہ کرنے کی غرض سے کل رات بعد عشاء ساڑھے نوبجے علی پبلک اسکول بھٹکل کے کیمپس میں ایک نشست کا انعقاد کیا گیا جس میں شہر اور آس پاس کے علماء اور ذمہ داروں نے شرکت کرتے ہوئے اسے کامیاب بنایا۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے محی السنۃ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب حقی رحمۃ اللہ کے تربیت یافتہ مولانا عبدالقوی صاحب مدظلہ العالی نے کہا کہ جو کام مساجد اور مدارس کے ذریعہ سے دین کی حفاظت کا ہورہا ہے اس کے ساتھ ساتھ ہم اپنے اوقات میں کچھ وقت دعوتی کاموں کے لیے ضرور نکالیں ، اپنے وقاتِ کار کو مرتب کرنے سے کچھ نہ کچھ وقت ضرور نکلے گا جس میں ہم ملک بھر میں پیش آرہے ارتداد کے واقعات کے سد باب کے لیے کوششیں ، اسی طرح سماجی اور فلاحی کاموں کے لیے اپنا وقت نکالتے وقت اس اہم ذمہ داری کو انجام دینے کی کوشش کرسکتے ہیں ۔ مولانا نے مثالوں کے ذریعہ واضح کرتے ہوئے کہا کہ صورتحال اس قدر تشویشناک ہوگئی ہے کہ کسی کے بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے۔اس سے قبل محدثین کے اور فقہاء کے گھروں میں ارتداد پھیل چکا ہے۔ لہذا اپنے کو ااپنی نسل کو بچانا ہم سب کی اہم ذمہ داری ہے۔
صدر جامعہ اسلامیہ بھٹکل وقاضی جماعت المسلمین بھٹکل مولانا محمد اقبال صاحب ملا ندوی نے اس ارتداد کے واقعات کا ذمہ دار موجودہ نظامِ تعلیم کو بتاتے ہوئے کہاکہ ایک مدت سے اس بات کی کوشش ہورہی تھی کہ نظامِ تعلیم میں تبدیلی کی جائے، اس کے ذریعہ سے دیومالائی چیزیں غیر محسوس طریقہ پر داخل کی گئیں جس کا نتیجہ آج ہم لوگ دیکھ رہے ہیں۔
مولانا محمد الیاس ندوی نے اپنے کلیدی خطاب میں ملک بھر میں پیش آرہے ارتداد کے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ برائی کو برائی نہیں سمجھا جارہا ہے۔ آدمی اپنے خراب عقیدے اور اعمال کے ذریعہ سے اسلام سے نکل رہا ہے لیکن اس کے باوجود انہیں ہم مسلمان تصور کیے ہوئے ہیں۔ کتنے واقعات ہیں جو سامنے آچکے ہیں اوراللہ ہی کو ان واقعات کی تعداد معلوم ہے جو ہمارے علم میں نہیں ہیں۔ مولانا نے مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے کہا کہ حضرت مولانارحمۃ اللہ علیہ کی بصیرت والی آنکھوں نے دیکھ لیا تھا کہ ایسے حالات ہمارے ملک میں پیدا ہونے والے ہیں ، اسی وجہ سے انہوں نے فرمایا تھا کہ جو مساجد تعمیر ہوچکی ہیں ان کی آبادی کی فکر کی جائے اور نئی مساجدوں کی تعمیر بند کی جائے اور سب کام کاج چھوڑ کر تیزی سے آنے والے ارتداد کے سیلاب کو روکنے کی کوشش کی۔ مولانا نے ملک بھر میں پیش آئے واقعات کے تناظر میں کہا کہ ابھی ہمارے نسل کو اس کی لپیٹ سے بچانے کے لیے ہمارے پاس اب بھی وقت ہے ۔ ہماری تھوڑی سی کوشش کئی افراد خصوصاً نئی نسل کو ایمان پر باقی رکھنے کا سبب ہوسکتی ہے اور ہمارے علماء الحمدللہ یہ کام کررہے ہیں لیکن جس تیزی کے ساتھ کام ہونا چاہیے وہ نہیں ہورہا ہے۔ حالات کی سنگینی پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا نے کہا کہ حالت یہ ہوگئی ہے کہ دیندار سمجھے جانے والے لوگوں کے گھر وں میں بھی ارتداد کے واقعات پیش آرہے ہیں اور اس سے بڑھ کر اور کیا بات ہوسکتی ہے کہ ان کے والدین کو بھی اس بات کا احساس نہیں ہورہا ہے۔ اس صورتحال میں امت کے قائدین اس بات کو لے کر فکر مند ہوگئے ہیں کہ کسی بھی طرح ان بچے اور بچیوں کو واپس لانے کی تدابیر اختیار کی جائیں اور جو نئی نسل عملی اور فکری طور پر اسلام سے نکل رہی ہیں انہیں دوبارہ لانے کی کوششیں کی جائیں۔ مولانا نے اس کی مزید تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ امت میں اب تین طبقے ہیں ایک الحاد میں جاچکا ہے دوسرا طبقہ وہ ہے جو جانے والا ہے اور ایک طبقہ وہ ہے جو کبھی بھی اس کا شکار ہوسکتا ہے۔ لہذا ہمیں ان تینوں طبقوں کو سامنے رکھ دعوتی کام انجام دینا ہے۔
جلسہ کی نظامت کررہے مولانا ابوالحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی کے شعبۂ دعوت وارشاد کے سکریٹری مولانا عبدالعلیم خطیب ندوی نے اس اہم پروگرام کے انعقاد کے اغراض ومقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں ہمارے سامنے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شخصیت ہمارے لیے اسوہ ہے۔ انہوں نے جس طرح اپنے زمانہ میں کام کیا ۔اسی کو نمونہ بناتے ہوئے ہم اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کے لیے آگے آئیں۔
مولانا محمد ایوب صاحب ندوی کی دعائیہ کلمات پر یہ نشست اپنے اختتام کو پہنچی ۔
Share this post
