خوبصورت پروگرامات سے عوام ہوئے محظوظ ، طلباء کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی کوششوں کی بھی کی گئی سراہنا
بھٹکل 25؍ جنوری 2019(فکروخبر نیوز) علی پبلک اسکول بھٹکل کا سال 2018-19کا سالانہ ثقافتی پروگرام اسکول کے وسیع وعریض گراؤنڈ میں منعقد کیا گیا۔ طلباء وطالبات نے گویا معاشرہ کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے اپنے مختلف پروگرامات پیش کیے جن سے نہ صرف اصلاحِ معاشرہ کا پیغام دینے کی کوشش کی بلکہ اس کے ذریعہ سے اپنی صحت کی فکر کرنے اور اسی طرح کنڑا زبان کو سیکھنے کی اہمیت ،طلاقِ ثلاثہ پر ہونے والی سیاست کو عملی طور پر پیش کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر کئی اہم امور کی طرف حاضرین کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی۔ اسی پروگرام میں نعتوں اور نظموں کے ذریعہ سے ملنے والے پیغام کو بھی خوبصورت انداز میں حاضرین کے گوش گذار کیا گیا۔ بعض پروگرام اتنے دلچسپ تھے کہ حاضرین داد دئیے بغیر نہیں رہ سکے۔ پروگرام اندازہ سے زیادہ کامیاب رہا اور اسکی کامیابی میں طلباء کے ساتھ ساتھ ان کے اساتذہ اور معلمات نے کا بھی اہم رول رہا۔
مختلف پروگرامات کی چند جھلکیاں
شہر کی صفائی اور ستھرائی میں جس طرح حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہوتی ہے اس سے زیادہ ذمہ داری وہاں کے باشندوں کی ہوتی ہے۔ اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ جہاں پر کچرہ پھینکنا منع کے بورڈ آویزاں کیے ہوئے ہیں ، وہیں پر کچرہ پھینک کر بہت سے لوگ آگے بڑھتے ہیں، اپنے آس پاس کی جگہ صاف ستھری رکھنے کے لیے سڑک کے کنارے کچرہ پھینک کر چلتے بنتے ہیں۔ خود صفائی پسند ہوتے ہیں لیکن دوسروں کے گھروں کے آس پاس کچرہ پھینکنے میں کبھی انہیں عار محسوس نہیں ہوتا۔ بعض دفعہ گھر کے ذمہ دار اپنے بچوں کو اس بات کی تاکید کے ساتھ کچرہ پھینکنے کے لیے بھیج دیتے ہیں کہ دوسروں پر نظر رکھتے ہوئے کچرہ پھینک کر آنا تاکہ کسی کو پتہ ہی نہ چلے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ڈھیر سارا کچرہ سڑک کے کنارے جمع ہوجاتا ہے۔ اس ڈرامہ کے ذریعہ طلباء نے اپنے شہر کی صفائی ستھرائی کا فکر کرنے کا بہت ہی بہترین پیغام دیا۔
ملک میں آج کل جو موضوع چل رہا ہے وہ طلاقِ ثلاثہ پر ہونے والی سیاست ہے۔ پارلیمنٹ پر اس پر ہونے والی سیاست کا عملی نمونہ طلباء نے پیش کیا جو بڑا کامیاب رہا اور عوام کے سامنے مسلم پرسنل لاء پر ہونے والی گندی سیاست کا ایک منظر سامنے آیا۔ جس طرح حکمراں جماعت اسے عائد کرنے میں اپنی چالاکی اور ہوشیاری کا مظاہرہ کرتی ہے اور کس طرح اسے حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے جوابات دئیے جاتے ہیں ، طلباء نے اسے بہت ہی اچھے انداز میں پیش کرکے اس کا عملی نمونہ پیش کیا ۔
صحت انسان کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے اور اس کے بغیر کوئی بھی انسان اپنے مقاصد کا حصول نہیں کرسکتا۔ بعض دفعہ ہم اس کا خیال رکھے بنا کچھ ایسی چٹ پٹے کھانے نوش کرلیتے ہیں جس سے نہ صرف ہماری صحت بگڑتی ہے بلکہ دوسروں کی بھی صحت بگڑ جاتی ہے اور اس طرح ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے میں یہ بیماری منتقل ہوتے پورے شہر کو اپنے لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ طلباء نے بڑے ہی دلچسپ انداز میں اپنے ڈرامہ میں صحت کو باقی رکھنے کی کچھ ایسے نسخے بتائے جس پر ہر آدمی آسانی کے ساتھ عمل کرسکتا ہے۔
موبائیل فون انسانی زندگی کا ایک ایسا جزو بن گیا جس کے بغیر انسان کو چین ہی نہیں آتا۔ کیا چھوٹا کیا بڑا ہر ایک کے ہاتھ میں موبائل فون ہے اور اس میں اکثر لوگ اپنا بیش قیمت وقت برباد کررہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اپنے ساتھ ساتھ اپنی بچوں کے ہاتھوں میں تھما کر ان کے اخلاق کو بھی بگاڑنے کا ذریعہ بن رہے ہیں ۔ طلباء نے اس سلسلہ میں ایک خوبصورت ڈرامہ پیش کرتے ہوئے موبائل فون کے غلط استعمال کے مضر اثرات پر وشنی ڈالی اور بقدرِ ضرورت اسے استعمال کرنے کا پیغام دیا۔
اسی کے ساتھ ساتھ طلباء نے معاشرہ میں پھیلی کئی ایک برائیوں کا نمونہ عملی طور پر پیش کرکے ان کے سدِ باب کے لیے آگے بڑھنے پر زور دیا اور خود کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی اس برائی سے بچانے کی تاکید کی۔
اسی پروگرام میں اسکول کی سالانہ رپورٹ پیش کی گئی اور مولانا محمد احمد بائیدہ ندوی نے سال بھر کی کارکردگی عوام کے سامنے رکھی ۔ تلاوتِ کلام پاک سے شروع ہونے والا یہ پروگرام دعائیہ کلمات پر اپنے اختتام کو پہنچا۔ شہر کے علماء ، عمائدین اور کثیر تعداد میں عوام نے اس پروگرام میں شرکت کرکے اس کا لطف اٹھایا۔
Share this post
