اس کا رہن سہن اسلامی ہو، اور وہ دنیوی تعلیم کے ذریعہ سے کائنات میں تخلیق کردہ چیزوں سے اللہ کو پہچاننے والا بنے ۔ ان خیالا ت کا اظہار مولانا سید محمد صہیب حسینی ندوی نے کیا۔ وہ آج صبح ساڑھے نوبجے جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں منعقدہ دووزہ تقاریر ، نعت اورکوئز مقابلہ کے افتتاحی تقریب سے خطاب کررہے تھے ۔ مولانا نے اپنے خطاب کے دوران واضح کیا کہ تعلیم کے ساتھ تربیت نہ ہو تو کچھ حاصل نہیں ہے ایسے علم کونبی صلی اللہ علیہ وسلم علمِ ضار قرار دیا ہے ۔قرآن قیامت تک کے لیے اور نبی بھی قیامت تک کے لیے جو شخص قرآن وحدیث کے مطابق عمل کرتا ہے ، اور اس کا پیغام دیتا ہے وہ دنیا کے سامنے روزنِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتا ہے پھر وہ شخص بھی قیامت تک کے لیے محفوظ ہوجاتا ہے اور دنیا اس کے خدمات کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے مولانا موصوف نے اپنے دلدوز اور سبق آموز خطاب میں حضرت مولانا ابولحسن ندوی رحمۃ اللہ کے حوالہ سے کہا کہ انہوں نے جو دین کاپیغام موجودہ دور کے لیے پیش کیا ہے آج ان کی ایک عبارت سامنے سے گزرتی ہے تو ایسے لگتا ہے کہ وہ آج ہی بول رہے ہوں ، مولانا علی میاں رحمۃ اللہ علیہ نے جو پیغام دیا تھا ، جس انداز سے انہوں نے کام کرنے کا طریقہ بتادیا تھا ان کے اس پیغام کو اہلِ بھٹکل نے اپنے سینوں سے لگایا اور ان کے پیغام کو عام کرنے کے لیے میدانِ عمل میں کود پڑے۔، ایک طرف مدارس کے ذریعہ سے دین کو پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں تو دوسری طرف وہ اسلامی طرز کے اسکول قائم کرکے ماڈرن طبقے کے لوگوں کو دین سے قریب کرنے کی سعی کررہے ہیں ۔اور علم کا مطلب ہی یہی کہ اس کے روشنی کو ہر میدان میں عام کیا جائے اور دوسروں کی مدد کی جائے ۔ مولانا نے مزید کہا کہ یہ چھوٹے بچے جنہوں نے حضرت مولانا کو دیکھا بھی نہیں تھاوہ حضرت ہی کی فکر کے حامل ہیں۔ ۔مولانا عبدالعلیم فاروقی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھٹکل کے علماء کی اصل پہچان ہی یہی ہے کہ یہاں کے عام طبقہ پر علماء طبقہ بھاری ہے ۔ انہوں نے اہلِ بھٹکل سے اپنے تعلق کے اظہار کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہاں آکر ان کو بڑی خوشی نصیب ہوئی اور ماشاء اللہ جس انداز سے یہاں کے علماء دین کی خدمت کررہے ہیں وہ لائقِ تحسین ہے ۔ کل ہند پیامِ انسانیت کے جنرل سکریٹری مولا نا محمد بلال حسنی ندوی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بچے جنہوں نے اس مقابلہ میں حصہ لیا ہے وہ ایک عادت ڈالنے کے لیے ہے ، کوئی بھی چیز عادت کے بعد عبادت بن جاتی ہے اور جب یہ عبادت بن جاتی ہے تو اس میں نکھار پیدا ہوجاتا ہے ۔ ناظم جامعہ ماسٹر محمد شفیع صاحب نے کہا کہ صرف زبان کے ذریعہ دینی تعلیم کی فکر کی بات کہی جائے اس کے متعلق تعریفی کلمات کہیں جائے تو یہ اس سے لگاؤ کی علامت نہیں ہے بلکہ انسان کا دینی محبت کا جذبہ اس وقت سچا تصور کیا جائے جب وہ اپنے بچوں کو دینی مدارس میں داخل کریں اور اپنی اولاد میں سے کسی کو حافظِ قرآن یا عالمِ دین بنائے ۔جلسہ کی صدارت کررہے جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے نائب صدر مولانا محمد اقبال ملا ندوی نے کہا کہ بچہ اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتا ہے اور بچپن میں جو چیز اس کے سامنے آجاتی ہے وہ اس دل میں پیوست ہوجاتی ہے ۔ آج اسکولوں کے نصاب میں ایسے اسباق کو داخلِ نصاب کیا جاتا ہے جس کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا ۔ اسکولوں کے طلباء کو جمع کرکے پروگرام کرانے کا مقصد ہی یہی ہے کہ اس کے سامنے ایسی چیزیں سامنے آجائیں جو ان کے دلوں میں بیٹھ جائے اور ایک اچھا پیغام ان کو ملے ۔ واضح رہے کہ اس پروگرام میں اردو اور عربی تقاریر ، عربی نعت ، اردو نعت اور کوئز مقابلہ کی کچھ جھلکیاں سامعین کے سامنے پیش کی گئیں ۔ اس پروگرام کا آغاز تلاوت کلام پا ک سے ہوا جعفر صادق کندنگوڑا نے نعت پیش ۔ اللجنۃ العربیہ کے مشرف اعلیٰ مولا نا افضل ندوی نے مہمانوں کی خدمت میں استقبالیہ پیش کیا ۔ او رجلسہ کی غرض وغایت مولانا محمد الیاس ندوی نے پیش کیا ۔ قریب پاؤنے دوبجے یہ نشست اپنے اختتام کو پہونچی ۔
Share this post
