اُس کے اختیار میں سب کچھ ہے ، حالات تو اعمال کے لحاظ سے ہوتے ہیں ، ہم یہ دیکھیں کہ ہماری کیا کوتاہیاں ہیں ؟ اپنی کوتاہیوں پر ہمیں غور کرنا چاہیے۔ تدبیر کی کوتاہی اور اللہ کی خوشنودی کے معاملہ میں کوتاہی ، دونوں کوتاہی دیکھنے پڑیں گی اس لیے کہ تدبیر بھی پوری کرو اور اللہ کی رضا کے مطابق عمل کرو ، دونوں چیزوں کو جمع کرنے پر کامیابی ہوتی ہے ، تدبیر میں کوتاہی کی جائے گی تو نقصان ہوگا اور اللہ کے رضا کے خلاف کام کیا جائے گا تو نقصان ہوگا ۔ حضور صلی اللہ علیہ کے زمانے میں جو جنگیں ہوئیں ان سے مثال ملتی ہیں ،پوری تدبیر بھی کرائی گئی اور اللہ کا خوف بھی اوران کے اعمال میں اللہ کا ماننا بھی رہا تو اللہ نے ان کو کامیاب بنایا ، بڑی بڑی حکومتیں ان کے سامنے ڈھیر ہوگئیں جب کہ عربوں کی کوئی طاقت ہی نہیں تھی، ذلیل سمجھے جاتے تھے ،بڑی حکومتیں تو ان کے ساتھ گھٹیا انداز اپناتے تھے لیکن عرب ان پر غالب آتے گئے۔ تو دونوں چیزوں کو اللہ دیکھتا ہے، تو ہمیں اپنے متعلق سوچنا چاہیے کہ کہ ہماری کیا کوتاہیا ں ہیں ؟ کہ جن کی وجہ سے ایسے حالات پیدا ہوگئے ۔اللہ تعالیٰ کے اختیار میں سب کچھ ہے وہ چاہے تو ایسے ہی سب کچھ حالات بدل سکتا ہے ۔ حالات سے نہیں ڈرنا چاہیے ، ڈرنا چاہیے اپنے عمل سے کہ تدبیر کے لحاظ سے ہمارا عمل کیسا رہا ہے اورا صلاح اور رضائے الہی کے تعلق سے کیا رہا ؟ دونوں میں سے کسی میں نقص ہے اس وجہ سے ایسے حالات بنے ہیں اور اُس نقص کو دور کریں تو اللہ تعالیٰ حالات کو بدل سکتا ہے ۔ بڑی سے بڑی طاقت بھی نقصان نہیں پہنچا سکتی اگر اللہ تعالیٰ نہ چاہے ۔
ایڈیٹر : مدارس کے سلسلہ می تجدید کاری کی بات کی جارہی ہے ...؟
حضرت مولانا : کچھ بھی کریں اس سے ڈرنے کی کوئی بات ہی نہیں ہے ۔ اپنے طریقے کو صحیح طور پر اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ سب اب سے نہیں بہت پہلے سے چلتا آرہا ہے، بیان بازی سے کچھ نہیں ہونے والا، بیان بازی الگ چیز ہے اور عمل الگ چیز۔جب سے ہندوستان آزاد ہوا ہے انہوں نے بہت کوششیں کی ہیں لیکن وہی ہوا جو اللہ چاہتا ہے ۔ اس کے باوجود ہم عزت کے ساتھ ہے ۔ کیسے فسادات ہوئے ۔کیسی کیسی تدبیریں ہوئیں کہ مسلمان یہاں ذلیل ہوسکے ۔تو نظر اللہ پر رکھنی چاہیے ۔ حالات پر نہیں ۔ لیکن اللہ پر نظر رکھنے کا مطلب یہ نہیں تدبیر ہی اختیار نہ کرو، تدبیر بھی صحیح کرنی چاہیے۔ ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے یہی سبق ملتا ہے ۔ آپ نے تدبیر میں بھی کوئی کمی نہیں کی ۔ خندق کھودنے کا جو مشورہ دیا گیا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی طرف سے آپ نے اسے اختیار کیا اور خندق کھودنے کی محنت کی اور اللہ تعالیٰ چاہتا تو بغیر خندق کے بھی فتح ہمیں دے سکتا ہے ۔ اور خندق کھودنے میں کتنی محنت پڑی اور عربوں میں اس کا رواج بھی نہیں تھا لیکن آپ نے تدبیر اختیار کی ۔ تدبیر بھی پوری اختیار کرنی پڑے گی اور اللہ سے رجوع بھی ۔
ایڈیٹر : اقلیتی امور کی وزیرنجمہ ہپت اللہ نے مسلمانوں کو اقلیتوں میں شمار ہی نہیں کیا ہے؟
حضرت مولانا : نہ کریں ان کے کرنے سے کیا ہوتا ہے ؟ ان کی کیا حیثیت ہے ۔ دیکھئے حالات تو آہستہ آہستہ ...... کیا ہوتا ہے ؟ ہمیں اپنا موقف صحیح کرنا چاہیے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی مدد ہوتی ہے ۔
ایڈیٹر : عالمِ اسلام کی جو ابھی صورتحال ہے۔ شام ، مصر ان تمام چیزوں میں بھی ہندوستانی مسلمان کچھ دو تین فرقوں میں بٹ چکے ہیں ، لوگوں کے اپنے اپنے دلائل ہیں...!
حضرت مولانا : یہ بات اللہ کو ناراض کرنے والی ہے ۔ کیوں نہیں متحد ہوتے ؟ کیوں نہیں اپنے اعمال کو درست کرتے؟ جو اپنے اعمال کو درست نہیں کریں گے تو یہی ہوگا.. عالم اسلام کیا ؟ آپ سمجھتے ہیں کہ وہاں لوگ نیک ہیں ؟ وہاں برائیاں پھیلی ہوئیں ہیں اور خود یہاں مسلمانوں کو دیکھو ۔ شراب عام ہوگئی ہے ۔ حرام حلال کا فرق ختم ہوگیا ہے ۔ اور اللہ کے حقوق کی خلاف ورزی کھلم کھلا ہورہی ہے ۔ کیا حال ہے مسلمان معاشرے کا ۔ تو اس کا جو نتیجہ نکلتا ہے وہ ہمارے سامنے ہے ۔
ایڈیٹر : اس وقت ہندوستانی مسلمانوں کو کوئی پیغام ؟
حضرت مولانا : پیغام تو یہی ہے کہ تدبیر بھی صحیح کریں اور اپنے کو اللہ کی رضا کے مطابق بنانے کی کوشش کریں تو خود مسائل سارے حل ہوجائیں گے ۔ غیر مسلم صرف تدبیر پر اعتبار کرتے ہیں اور مسلمان کو اللہ نے یہ مقام دیا ہے کہ وہ تدبیر کے ساتھ اللہ کی رضا کی بھی وصیت کرتا ہے ۔ اگر مسلمان صحیح عمل کرے گا تو اس کو کوئی مغلوب نہیں کرسکتا ۔ ہمارے پاس دونوں چیزیں ہیں ۔ ان کے پاس ایک ہی چیز ہے وہ ہے تدبیر اور تدبیر کو اللہ تعالیٰ جس وقت چاہے ناکام کردے اور جس تدبیر کو چاہے کامیاب بنادے ۔ اللہ سے ڈرنے کی ضرورت ہے کسی اور سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ۔ مسلمان کیوں ڈرتے ہیں ؟ اللہ سے ڈریں ۔ کیا ہوسکے گا ؟ کیا نہیں ہوسکے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔ کن باتوں میں کامیاب ہوں گے اور کن باتوں میں کامیاب نہیں ہوں گے ۔اقتدار پر کوئی بھی قابض ہو کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔
(نوٹ: صدر مسلم پرسنل لاء بورڈ حضرت مولانا سیدرابع حسنی ندوی مد ظلہ العالی کے دو روزہ بھٹکل دورہ کے دوران بتاریخ 14شعبان مطابق 13جون 2014ء بروز جمعہ بعد نمازِعصر جامعہ اسلامیہ جامعہ آباد بھٹکل کے مہمان خانہ میں مجلس کے بعد یہ انٹرویو لیا گیا ،جس کا اقتباس یہاں پیش کیا گیا ہے۔)
Share this post
