نظامِ تعلیم ایسا تیار کیا جائے جس سے ہمارے عقیدہ پر حرف نہ آنے پائے : مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی

اس کل ہند سمینار میں مذکورہ عنوان پر مسلمانو ں میں بیداری پید ا کرنے اور نئی نسل میں ایمان کا تحفظ اور اسلام پر اعتماد پر بحالی کے اسباب پرعلماء ودانشوران نے غوروخوض کیا۔ یہ اپنی نوعیت کا منفرد سمینار تھے جس میں علماء ودانشوران نے خطاب کے بجائے اپنی مفید آراء پیش کیں اور نئی نسل کو ایمان پر باقی رکھنے کی شکلیں اور اس کے لیے ایک لائحہ کے تحت مختلف تجاویز سامنے آئیں جن میں یہ بھی ہے کہ نظامِ تعلیم کو اسلامی بنایا جائے اور طلباء کی دینی خطوط پر تربیت کے لیے ملک کے محتلف حصوں میں ہاسٹلس کا قیام اور میڈیا کی اہمیت وافادیت بتاتے ہوئے اس میدان میں طلباء کو آگے بڑھایا جائے۔ اس موقع پر بانی وجنرل سکریٹری مولانا ابوالحسن علی ندوی مولانا محمد الیاس ندوی نے اپنے افتتاحیہ کلمات میں ایمانی تحفظ کے سلسلہ میں فکرمند ہونے کی ضرورت پر زوردیتے ہوئے کہا کہ آج حالات اس قدر خراب ہوگئے ہیں کہ اسلامی احکامات پر عمل کرتے ہوئے مسلمان اپنے بعض افعال اور اقوال سے اپنے مسلمان نہ ہونے کا ثبوت پیش کررہے ہیں۔ انہوں نے سمینار کے انعقاد کے مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ آج علماء اور دانشواران کی موجودگی میں ہمیں نئی نسل میں ایمان کے تحفظ کی شکلیں پیداکرنے کے لیے اسباب پر غور کرتے ہوئے اس کے لیے ایک منظم لائحہ عمل تیار کرنے اور ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کے لیے یہ کل ہند سمینار منعقد کیا گیا ہے۔ اس موقع پر اسٹیج پر آل انڈیا مسلم پرنسل لاء بورڈ کے صدر وناظم ندوۃ العلماء حضرت مولاناسید محمد رابع حسنی ندوی، معتمد تعلیمات دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو حضرت مولانا واضح رشید ندوی ، حضرت مولانا ولی رحمانی صاحب ، حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ، حضرت مولانا خالد ندوی غازیپوری ، حضرت مولانا امان اللہ صاحب بروڈ ، جناب سعادت اللہ صاحب حسینی ، مولانا ملا اقبال ملا ندوی ، مولانا بلال عبدالحئی حسنی ندوی ، جناب ماسٹر شفیع صاحب وغیرہ موجود تھے۔ 
نظامِ تعلیم ایسا تیار کیا جائے جس سے ہمارے عقیدہ پر حرف نہ آنے پائے : مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی 
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی نے کہا کہ انسان فطری طور پر چند چیزیں سیکھتا ہے لیکن جیسے جیسے اس کی عمر بڑھنے لگتی ہے وہ اپنے سے زیادہ جاننے والوں سے متأثر ہوتا ہے اور انہیں کی زندگی کو سامنے رکھ کر وہ اس کو اختیار کرتا ہے او رعمر کا یہی وہ مرحلہ سیکھنے یا تعلیم کا ہوتا ہے۔ مولانانے نظامِ تعلیم پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یورپ نے نظامِ تعلیم کو سیکولر بنایا بلکہ اس کو مذہب دشمن بنایا ،وہ کسی بھی صورت میں تعلیم کو مذہب کے ساتھ جوڑنا نہیں چاہتے تھے جس کی وجہ سے اس نظامِ تعلیم کو اپنانے والوں نے بھی مذہب کو تعلیم سے الگ کردیا اور مسلمان بھی دوسروں کی دیکھا دیکھی اس میں آگئے اور انہوں نے دین کو الگ اور تعلیم کو الگ تصور کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تعلیم یافتہ لوگ تو پائے جانے لگے لیکن مذہب کی ناواقفیت کی بنیاد پر وہ اسلام سے دور ہوتے چلے گئے۔ مولانا نے اپنے خطاب میں کہا کہ دین اور اور دنیا دو الگ چیزیں نہیں ہے بلکہ اسلام ان دونوں کو قبول کرتا ہے لیکن تعلیمی نظام میں صرف دنیا کو ہٹاکر رکھا جائے تو دین اس کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں کرے گا۔ مولانا نے نظامِ تعلیم میں تبدیلی کیے جانے کے فوائد سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس نظامِ تعلیم کی اصلاح کی ضرورت ہے ، ہمیں نظامِ تعلیم کو اس طرح بنانا چاہیے کہ ہماری دینداری قائم رہے، ہمارے عقائد صحیح ہواور ہماری فکر بھی مسلمان ہو اور اس پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے ایسے حالات پیدا ہورہے ہیں۔ مولانا نے ملک کے حالات بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ مقدمات مسلمانوں ہی کی جانب سے داخل کیے ہیں اور اس کے لیے مسلم پرنسل لاء بورڈ لاکھوں روپیہ خرچ کررہا ہے ان حالات میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم تحفظِ شریعت کے لیے کوششیں کریں اور اس کی سب سے بڑی صورت ہے ہوسکتی ہے کہ ہم دین پر عمل کریں ، ہمارے اخلاق سے دین ظاہر ہوں اور اس کو بھی غیر مسلم یہ سمجھیں کہ یہ تو دین پر عمل کرنے والے ہیں۔ 

نظامِ تعلیم کے ساتھ دینی تربیت اور میڈیا پر توجہ دی جائے : مولانا سید محمد واضح رشید ندوی 
معتمد تعلیم دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو حضرت مولانا سید واضح رشید ندوی نے کہا کہ مسلمانوں کے مرض کی صحیح تشخیص نہ ہونے کی وجہ سے یہ بیماری عام ہوتی چلی جارہی ہے ۔ مسلمانوں کا اصل مرض تعلیم یافتہ طبقہ ہے جو مسلمانوں کے مسائل کا سبب ہے۔ایک طبقہ وہ بھی ہے جو دینی تعلیم سے نکل کر جدید طبقہ کا ساتھ دے رہا ہے او راس کے ذریعہ تعلیم یافتہ طبقہ کو تقویت پہنچ رہی ہیں۔انہوں نے اس مرض کا علاج بیان کرتے ہوئے کہا کہ عصری معرفت کے ساتھ دینی تربیت ہو اور اس کے لیے کوششیں ہورہی ہے ،اس کے ساتھ ساتھ ہم اسکولی نظام درستگی ، علمی تحریکات کو فروغ اور میڈیا پر خصوصی توجہ دیں اور اس کو بنیاد پر ہم نئی نسل میں ایمان کے تحفظ شکلیں پیدا کرسکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہاکہ مولانا محمد الیاس ندوی جو نظامِ تعلیم پر کام شروع کیا ہے اور اس کی شکلیں پیدا کی ہیں وہ قابلِ ستائش اور مؤثر ہے۔ 

Share this post

Loading...