ملک کے موجودہ حالات میں پیامِ انسانیت کی زمہداری نبھانا اشد ضرورت : مولانا بلال حسنی ندوی

اور ہوسکتا ہے مستقبل میں یہ تمام راستے مسدود کرائیں جائیں،ہمیں اس سے قبل ہی پیامِ انسانیت کے تحت دعوتی کاموں کے لیے راہ ہموار کرنی چاہیے تاکہ ہمیں مستقبل میں دعوتی کام کرنے کے لیے کوئی دقتیں پیش نہ آئیں ، مولانا نے اپنے خطاب میں سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا کہ ہم اپنی افادیت سامنے لانے کی کوشش کریں اور غیروں کے سامنے ہمیں خود کو اس انداز سے پیش کرنا ہے کہ ہم ان کے لیے فائدہ مند ہیں ، جب یہ چیز پیدا ہوگی تو وہ ہم سے قریب ہوں گے اور ہمیں اپنے دعوتی فریضہ کی ادئیگی کے لیے مواقع ہاتھ لگیں گے۔ مولانا نے مزید کہا کہ حکمت کے ساتھ ہمیں اس کام کو کرنا ہے،پیامِ انسانیت کے کام کرنے والے افراد الگ ہوں اور دعوت دینے والے افراد الگ ہوں تاکہ اس سے غلط فہمی پیدا نہ ہوجائے۔ اس سے پہلے اس طرح کی غلطیاں ہوچکی ہیں اور ہمیں اس بات پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مولانا نے کہا کہ غیرمسلموں میں کام کرنے کے طریقے مختلف ہوسکتے ہیں ، میڈیکل کیمپ ، خون عطیہ کیمپ اور اس طرح اسپتالوں میں پہنچ کر ان کی عیادت کرکے بھی ہم ان کے سامنے اپنی افادیت سامنے رکھ سکتے ہیں ، اس کے علاوہ ان کے درمیان سیرت کے عنوان پر مقالات لکھوا کر انہیں انعامات دیتے ہوئے بھی اپنی مقاصد میں کامیابی کے لیے شکلیں پیدا کی جاسکتی ہیں۔ بانی وجنرل سکریٹری مولانا ابوالحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی بھٹکل مولانا محمد الیاس ندوی نے کہا کہ ہم اپنے ایمان کی کمزوری کے باوجود دعوتی فریضہ انجام دینا ضروری ہے ۔ ہمیں اس طور پر محنت کرنے کی ضرورت ہے کہ قیامت میں جب جہنمی لوگوں سے ان کے جہنم میں جانے کی وجوہات پوچھیں جائیں تو وہ کہہ سکیں کہ ہمارے پاس حق کا پیغام آچکا تھا لیکن ہم ہی نے اس کا انکار کیا۔ مولانا نے کہا ظالم پر اس وقت اللہ کا عذاب آتا ہے جب اس کے پاس حق کا پیغام پہنچنے کے بعد بھی وہ ظلم کرتا ہے لیکن جب اس کے پاس حق کا پیغام پہنچاہی نہیں تواس پر اللہ کا عذاب نہیں آتا ، ہمیں حکومتی طبقہ کے لوگوں کے ساتھ ساتھ متوسط اور دیگر لوگوں کے درمیان بھی دعوتی فریضہ انجام دینا ہے ۔ مولانا نے دعوتی میدان میں آگے بڑھنے کی نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ دعوت سے کوئی مسائل پیدا نہیں ہوتے ، حکمت کے ساتھ دعوت دیں اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں بھی کرتے رہیں توان دعاؤں کے اہتمام کی برکات سے آپ کے جیتے جی اس کے نتائج بھی دیکھیں گے اور اس طرح کے کئی ساری مثالیں موجود ہیں۔ مولانا نے غیر مسلموں کے درمیان سیرت کے تحریری مقابلہ کرانے کی اہمیت اور اس سے سامنے آنے نتائج کا تفصیلی تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں صرف کوشش کرنی ہے اور نتائج اللہ کے ہاتھ میں ہے ، اگر نتائج نہ بھی آئیں تو کبیدہ خاطر ہونے کی ضرورت نہیں ، بلکہ ہمیں یہ سوچنا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس دعوتی فریضہ کی ادائیگی پر اجر تو ضروردے گا۔ مولانا نے دسیوں واقعات حاضرین کے سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ موجودہ دور میں جس آزادی کے ساتھ ہندوستان میں دعوتی کام کررہے ہیں وہ آزادی دیگر ممالک میں نہیں ہیں اور ہمیں اس پر اللہ کا شکر بجالانا چاہیے۔ ملحوظ رہے کہ غیر مسلموں میں سیرت کے مقابلہ کرانے والے دیگر علماء اور ذمہ داروں نے بھی اپنے اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ملک بھر میں اس کو پھیلاکر غیر مسلموں میں پھیلائی جارہی بدگمانیاں پر روک لگائی جاسکتی ہیں اور ہمیں مستقبل قریب میں نہیں بلکہ مقابلہ کے نتائج پر اس کے فوائد سامنے آئیں گے۔ اس خصوصی نشست میں بھی ڈھائی سے تین سے ملک بھر کے گوشوں سے آنے والے مہمانوں نے شرکت کی اور اپنی آراء اور تجاویز پیش کیں۔ اسٹیج پر مہتمم جامعہ اسلامیہ بھٹکل مولانا مقبول احمد کوبٹے ندوی ، مولانا ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی وغیرہ موجود تھے۔ 

Share this post

Loading...