جھوٹے کھانوں کو استعمال میں لانے کا نیا طریقہ

عرفات امین کی یہ دکان بالمٹا روڈ کے بالمقابل کے ایم سی اسپتال کے قریب واقع ہے جہاں سے گذرنے والے ضرورتمند اپنی ضروریات کے کھانے مفت میں لے جاسکتے ہیں۔اس کو براہِ راست دیکھنے کے لیے اس نے فریج کے قریب ہی ایک سی سی ٹی وی کیمرہ بھی نصب کیا ہے۔ عرفات امین کا کہنا ہے کہ میں نے جھوٹے کھانوں کو غریبوں تک پہنچانے کے لیے انوکھے طریقے کے سلسلہ میں گھروالوں اور دوستوں سے بھی مشورہ کیا لیکن کسی کی بھی طرف سے مجھے اطمینان بخش رائے نہیں ملی ، ایک روز میں اس کا طریقہ انٹرنیٹ پر ڈھونڈرہا تھا تب مجھے یہ انوکھا طریقہ ملا اور 02 دسمبر کو میرے اس خواب کی مجھے تعبیر مل گئی۔ ذرائع کے مطابق عرفات نے دیگر تازہ کھانے فریج میں رکھنے کے لیے 700روپئے خرچ کیے جس کے بعد دیگر لوگوں نے بھی غریبوں کی مدد کے شوق میں پانی کی بوتلیں ، پلاؤ پاکٹ ، لسی اور دیگر کھانے کی اشیاء رکھیں ۔ عرفات کا کہنا ہے کہ میں پندرہ دن کے بعد ترکاری وغیرہ کی کھانے کی اشیاء بھی رکھوں گا اور اس کے لیے ایک نیا فریج خریدنے کا بھی اارادہ ہے۔ عرفات کے والد نوراللہ اپنے بیٹے کی اس کام پر بہت خوش ہے ، انہوں نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کھانا خراب کرنا گناہ ہے ، اس کے بدلے ہم غریبوں کی مدد کریں۔ 

 

شیرڈی گھاٹ کا کام ابھی شروع ہی نہیں ہوا 

نیشنل ہائی وے اتھاریٹی نے کنٹراکٹر سے مانگا جواب 

منگلور 06؍ دسمبر 2016(فکروخبرنیوز) شیرڈی گھاٹ کی سڑک کا تعمیری کام شروع کرکے یکم دسمبر سے ٹرافک کے لیے دوبارہ کھولنے کا عزم ظاہر کیا گیا تھا لیکن یہاں ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق ابھی تک سڑک کام شروع ہی نہیں کیا گیا جس سے آمدورفت کے لیے بہت ہی پریشانیاں پیش آرہی ہیں۔ ذرائع کے مطابق یہ کام مزید کچھ ہفتوں کے لیے ملتوی کیا گیا ہے۔ شیرڈی گھاٹ کی سڑک سواریوں کے لیے روک دئیے جانے کے بعد اس کے بدلہ سواریوں کو دوسرے رخ پر موڑدیا گیا تھا جس سے ڈرائیور بہت پریشان تھے لیکن کام ابھی پورا نہ ہونے کو لے کر ان کی پریشانیاں مزید بڑھ رہی ہیں ۔ اس سلسلہ میں ایک خصوصی نشست منعقد کرکے جب اس کی وجوہات جاننے کی کوشش کی گئی تو کنٹراکٹروں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ نوٹ بندی کی وجہ سے تعمیری کام پر بہت زیادہ اثر پڑا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ریت آسانی کے ساتھ دستیاب نہ ہونا بھی ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ دوسری جانب سے نیشنل ہائی وے اتھاریٹی نے ایکزیکیٹیو کنٹراکٹر جی وی آر کمپنی سے جواب بھی طلب کیا ہے۔ 

Share this post

Loading...