وہ یہاںآج صبح جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کے زیر اہتمام منعقدہ دو روز تدریب المعلمین کے اجلاس کے افتتاحی نشست سے خطاب کررہے تھے۔ موصوف نے اس موقع پرملک کے مختلف علاقوں سے آئے اساتذہ کرام کو بتایا کہ پہلے بچوں کے نفسیات کو سمجھاجائے ،پچہتر فیصد بچوں کی وہ تعداد ہے جن کی صلاحیت متوسط درجہ کی یا پھر اس سے کمتر ہوتی ہے ، جینئس سے کوئی کوئی ہوتا ہے ۔موصوف نے اساتذہ کو جہاں تدریس میں پیش آنے والے کئی نشیب و فراز کو بیان کیا وہیں عصری تعلیم کے نظام تعلیم کو قریب سے جاننے کی کوشش پر زور دیااور کہا کہ ایک ایسے نظام تعلیم کی ضرورت ہے جس میں جدید ترین وسائل کا استعمال کرتے ہوئے طلباء کو نئے طریقوں سے تعلیم دی جاسکے ۔ ہمیں کلی طور پر عصری تعلیم سے منھ موڑنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ دین کی روشنی میں ہمیں عصری تعلیم کو حاصل کرنے پر زور دینا چاہیے۔ موجودہ نظام تعلیم کا دم گھٹ چکا ہے ۔تقوے کے بغیر تعلیم کا نظام کسی بھی دور میں کامیاب نہیں رہا، ۔ معلم کو جوابدہی کااحساس ہے۔ یہ موجودہ دور کا المیہ یہ ہے کہ تعلیم میں حکومت نے مداخلت شروع کی اور اس میں ایسی نئی پالیسیاں لائیں جس سے ہمارا نظام تعلیم کھوکھلا ہوچکا ہے۔ کھانے کھلانے کا لالچ دے کر عقائد پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔ موجودہ نظامِ تعلیم میں ایسی پالیسوں کو اختیار کیا گیا ہے کہ استاد کی حیثیت ختم ہوتی نظر آرہی ہے اور طلباء کو اختیارات حاصل ہیں جس سے تعلیم کی روح ختم ہوجاتی ہے ۔ موصوف نے غیر مسلموں کے دلوں میں پھیلی غلط فہمیوں کے ازالوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اب مسلم طلباء کو اس کے لیے کوششیں کرنی چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے کامیاب معلم کے لیے کن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے اس عنوان پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی۔شاہین ادارہ جات بیدر کے ناظم اعلیٰ جناب عبدالقدیر صاحب نے بھی مختصر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اپنے اداروں کا تعارف پیش کیا۔ مولانا علاؤ الدین ندوی نے عربی زبان کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہر دور میں اس کی اہمیت مسلم رہی ہے ۔ موجودہ دور میں اس کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے ۔ یہ زبان معاشی اور اقتصادی طور پر بھی ترقی کررہی ہے۔لہذا اس زبان کو سیکھنے سکھانے پر زیادہ زور دینا چاہیے۔ بچپن میں جب بچہ کو اللہ ، محمدکے الفاظ سکھائے جاتے ہیں اسی طرح ان کے دلوں میں اس زبان کی اہمیت اور افادیت کو بٹھانا چاہیے۔ موصوف نے زبان واداب کی اہمیت وافادیت پرروشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کسی بھی زبان کو سیکھنے کے لیے چار طریقے اپنانا ضروری ہے ۔ سننا ، بولنا ، لکھنا اور پڑھنا اس کے بغیر کوئی بھی زبان نہیں سیکھی جاتی ۔ کسی بھی زبان کو سیکھنے کے لیے پوری طرح کوشش کرے۔۔ ملحوظ رہے کہ جلسہ کا آغاز شفیق کیرلا کی تلاوت سے ہوا ۔ مہتمم جامعہ اسلامیہ بھٹکل مولانا عبدالباری ندوی نے مہمانوں کی خدمت میں استقبالیہ کلمات پیش کیے ۔ استاد تفسیر جامعہ اسلامیہ بھٹکل مولانا الیاس ندوی نے تمہیدی کلمات پیش کرتے ہوئے مہمانوں کا تعارف پیش کیا۔ قریب ڈیڑھ بجے یہ افتتاحی نشست اپنے اختتام کو پہونچی ۔ یاد رہے کہ دو روزہ اس ورکشاپ کی کڑی کل شام تک چلتی رہے گی،آج بعد نمازِ مغرب بھی اس کا سلسلہ چلتا رہا جس میں کئی علماء کرائم نے درس و تدریس کے الگ الگ عنوانات پر اپنے مقالات پیش کئے۔ اس کی تفصیلات عنقریب پیش کی جائیں گی۔ اس اجلاس میں شرکت کے لیے ملک کے کئی اہم ریاستوں اور شہروں سے اساتذہ تشریف لائے ہوئے ہیں اورمستفید ہورہے ہیں۔
Share this post
