ملائم کے پوتے تیج پرتاپ کے تلک میں شریک ہوئے وزیر اعظم مودی(مزید اہم ترین خبریں )

اس دوران اترپردیش کے گورنر رام ناکی بھی موجود تھے.160ملائم سنگھ یادو کے پوتے اور مین پوری کے رہنما تیج پرتاپ یادو کی شادی راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے سربراہ لالو پرساد یادو کی بیٹی راجلکشمی کے ساتھ طے ہوئی ہے.تلک کی تقریب میں وزیر اعظم نریندر مودی کے علاوہ مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ، اداکار امیتابھ بچن، صنعت کار انل امبانی سمیت دیگر نامور۔گرامی ہستیاں شرکت کریں گی.مہمانوں کے لئے ملک کے مختلف حصوں کے مقبول آمدورفت تیار کئے جا رہے ہیں. چوکھا باٹی، سرسوں کا ساگ، مکہ کی روٹی، دال باٹی کا خصوصی انتظام کیا گیا ہے. مخصوص مہمانوں کے علاوہ چار اضافی پڈالو میں لوگوں کے لئے کھانے کا انتظام کیا گیا ہے. تین پنڈال مردوں کے لئے اور ایک خواتین کے لئے ہے. کھانا بنانے کا بندوبست آگرہ کے خیال ی یٹرس و ٹوڈلا کے برہمچاری کو سونپی گئی ہے.جے پور، لکھنؤ اور دہلی کے کاریگر بلائے گئے ہیں. خاص مہمانوں کے لئے و? آئی پی کاٹیج بنائے گئے ہیں. جے پور کے کاریگروں کی طرف سے تیار کئے گئے ان کاٹیج میں گھر جیسی سہولیات ہیں.تیج پرتاپ کے تلک میں ہفتہ کو وزیر اعظم نریندر مودی کی آمد کو دیکھتے ہوئے سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے. ہوائی پٹی سے لے کر سیفئی تک کے 10 کلومیٹر کے دونوں راستوں پر بیرکییڈگ کی گئی ہے. چپے۔چپے پر پولیس فورس کی تعیناتی کی گئی ہے.


 

وزیراعلیٰ اکھلیش یادو کی محمودآباد آمد

لکھنؤ۔21فروری(فکروخبر/ذرائع)اترپردیش کے وزیراعلیٰ اکھلیش یادو کی پچیس فروری کو محمود آباد آمد کاپروگرام ہے۔ وزیراعلیٰ کی میزبانی کرنے والا کالج مولانا آزاد انسٹیٹیوٹ آف ہیومی نیز سائنس اینڈ ٹکنالوجی کے سبھی ممبران وذمہ داران تیاریوں کو اختتامی مراحل تک لے جانے کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ نیز وزیراعلیٰ کی آمد ہر جگہ موضوع گفتگو بنی ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں گذشتہ روز کالج کیمپس میں انتظامیہ اور کالج اسٹاف کا اہم جلسہ بھی ہوا جس میں وزیراعلیٰ کے پروگرام کی تفصیل پیش کی گئی ۔ واضح رہے کہ مولانا آزاد انسٹیٹیوٹ بانی وسکریٹری سابق کانگریسی وزیر ڈاکٹر عمار رضوی کی دعوت پر یوپی حکومت کے وزیراعلیٰ اکھلیش یادو پچیس فروری کو محمود آباد آرہے ہیں۔ اطلاع کے مطابق وہ صبح دس بجے ہیلی کاپٹر سے سبھاش چندر بوس اسٹیڈیم محمودآباد میں اتریں گے۔ پھروہاں سے کار کے ذریعے مولانا آزاد انسٹیٹیوٹ پہنچیں گے اور نوتعمیر مولانا آزاد کے قدآور مجسمے کی نقاب کشائی کریں گے۔ اور وہیں کالج کیمپس میں حاضرین کو خطاب کریں گے۔اطلاعات یہ بھی ہیں کہ وزیراعلیٰ مولانا آزاد کالج کو یونیورسٹی اورجواہر لعل نہرو پالی ٹیکنک کو انجینئرنگ کالج بنانے کا بھی اعلان کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ضلع کے کامیاب طلبہ وطالبات میں ایک سواسی کو لیپ ٹاپ سے نوازیں گے۔ 


 

وزیراعلیٰ نے کیا پوروانچل ، بندیل کھنڈ اورروہیل کھنڈ میں ایمس کا مطالبہ 

لکھنؤ۔21فروری(فکروخبر/ذرائع)وزیراعلیٰ اکھلیش یادو نے آج مرکزی حکومت سے رائے بریلی کی طرز پر پوروانچل ،بندیل کھنڈ اور روہیل کھنڈ علاقہ میں بھی ایمس کے قیام کا مطالبہ کیا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ان اداروں کے قیام کیلئے ان کی حکومت ترجیحی بنیاد پر ضروری آراضی دستیاب کرائے گی۔ وزیراعلیٰ اس سرکاری قیام گاہ پر مرکزی وزیر صحت وکنبہ بہبود جے پی نڈا نے اکھلیش یادو سے ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران وزیراعلیٰ نے مرکزی وزیر کو صحت سے متعلق سہولتوں کو مزید بہتر بنانے کیلئے ریاستی حکومت کی کوششوں کی معلومات فراہم کی۔ ریاست کے صحت خدمات کو بہتر بنانے کیلئے مرکزی حکومت سے زیادہ سے زیادہ تعاون اور مدد فراہم کرانے کی اپیل کی۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ اترپردیش ایک بڑی ریاست ہے یہاں میڈیکل کالجوں کی تعداد آبادی کی ضرورتوں کے مطابق نہیں ہے۔ریاست میں زیادہ تر ضلع ایسے ہیں جہاں میڈیکل کالج نہیں ہیں ریاستی حکومت اپنے محدود وسائل سے نئے سرکاری میڈیکل کالج قائم کررہی ہے۔ اس کے باوجود عوام کو معقول طبی سہولت فراہم کرانے کیلئے زیادہ سے زیادہ اضلاع میں میڈیکل کالجوں کاقیام ضروری ہے۔ اس کے پیش نظر بستی ، فیروز آباد ،بہرائچ ، فیض آباد اور شاہجہاں پور کے ضلع اسپتالوں کوحکومت ہند کے منصوبے کے تحت میڈیکل کے طور پر اپ ڈیٹ کرنے کافیصلہ کیاگیا ہے ۔ ریاستی حکومت منصوبے کے بندوبست کے مطابق رقم فراہم کرانے کیلئے متفق ہے۔ انہوں نے وزارست صحت کی اسکیم کے تحت ان اضلاع میں میڈیکل کالجوں کے قیام کیلئے مرکزی وزیرصحت سے جلد رقم فراہم کرانے کی اپیل کی ہے۔ وزیراعلیٰ نے بتایا کہ قومی انسداد امراض پروگرام پرموثر درآمد ہورہا ہے۔ ریاست کے جے ای اے ای ایس سے متاثر اضلاع میں صحت خدمات پر مستعدی سے عمل درآمد کرایاجارہا ہے۔ گورکھپور میڈیکل کالج میں دماغی بخار کے علاج کیلئے پانچ سو بستر والے اطفال امراض طبی ادارے کی تعمیر شروع ہوگئی ہے مرکزی وزیر کو سوائن فلو کے علاج کے سلسلے میں ریاستی حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے قدموں کی اطلاع دیتے ہوئے اپیل کی کہ اس مرض کے علاج کے لئے حکومت ہند کی جانب سے ریاستی حکومتوں کو مقررہ وقت پر ٹیکے دستیاب کرائے جائیں۔ مرکزی وزیر صحت نے ریاستی حکومت کی کوششوں کی ستائش کرتے ہوئے اس سلسلے میں حکومت ہند کے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ۔ اس موقع پر ریاستی وزیر صحت وکنبہ بہود احمد حسن ، چیف سکریٹری آلوک رنجن ، پرنسپل سکریٹری طب وصحت ارون کمار بھی موجود تھے۔ 


 

اوریا، اٹاوہ کا دورہ کریں گے ڈاکٹر کھتری 

لکھنؤ۔21فروری(فکروخبر/ذرائع)کانگریس کی بارہ مارچ کو ہونے والی ریاست گیر تحریک ’ریل روکو ، نیشنل ہائی وے جام کرو‘ کو کامیاب بنانے کیلئے ریاستی کانگریس صدر ڈاکٹر نرمل کھتری متعدد اضلاع کادورہ کریں گے ۔ ڈاکٹر کھتری منگل کواوریا میں رہیں گے اور بدھ کو اٹاوہ میں کارکنان سے ملاقات کریں گے۔ ریاستی نائب صدر اور کمیونکیشن محکمہ کے چیئرمین ستیہ دیو ترپاٹھی کے ساتھ ڈاکٹر کھتری پد یاترابھی کریں گے۔ ریاستی کانگریس انچارج ترجمان وریندر مدان نے بتایا کہ ڈاکٹر کھتری چوبیس فروری کو دوپہر میں اوریا پہنچیں گے جہاں سے شام کو اٹاوہ کیلئے روانہ ہوں گے۔ وہ اٹاوہ میں پچیس فروری کو پہنچ کر ضلع اور شہر کانگریس کمیٹی کی جانب سے منعقد پیدل مارچ میں بھی شامل ہوں گے۔ مارچ کے دوران ڈاکٹر کھتری بارہ مارچ کو ہونے والی ریاست گیر تحریک میں لوگوں سے حصہ لینے کی اپیل کریں گے۔ 


 

آزادی کے بعدمادری زبان کی وہ اہمیت نہیں رہی 

آج بھی لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ انگریزی زبان سے روزگار کی ضمانت ممکن ہے

بیدر۔21فروری (فکروخبر/ذرائع) آزادی کے بعدمادری زبان کی وہ اہمیت نہیں رہی ۔ آج بھی لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ انگریزی زبان سے روزگار کی ضمانت ممکن ہے۔ لوگ مادری زبان سے تعلیم دینے کے بجائے انگریزی میڈیم سے تعلیم کوترجیح دے رہے ہیں ۔ جبکہ سچائی یہ ہے کہ مہد سے لحد تک یعنی گود سے گور تک مادری زبان ہی کسی انسان کی رہبری کرسکتی ہے۔یہ بات ممتا ز ماہر تعلیم اورہندی پنڈت جناب نثاراحمد کلیم نے کہی۔ وہ آج ایم آرپلازا ، تعلیم صدیق شاہ بیدر میں نوجوانوں کی ’’اردو کی ترقی وترویج ‘ ‘ سے متعلق تنظیم کے زیراہتمام’’ عالمی یوم مادری زبان ‘‘ (اردو)کی تقریب سے خطاب کررہے تھے۔ انھوں نے ملک کے دانشوروں پر زور دیاکہ وہ مادری زبان کی اہمیت کوسمجھتے ہوئے مادری زبان میں تعلیم کے حصول کی تحریک کو شروع کریں ۔ موصوف نے مادری زبان اردو کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ اردو کسی ایک زبان کی نہیں بلکہ مختلف طبقات اور فرقوں کی زبان ہے۔ اور ہمہ گیر معنویت کی علمبردارہی نہیں ایک جاندار اور سیکولر زبان ہے۔ تاہم اس پر حکومت اتنی توجہ نہیں دے رہی ہے اور ہم بھی اردو سے بے اعتنائی کے مجرم ہیں ۔اردووالے اپنی مادری زبان کو بچانے کے لئے زبانی جمع خرچ کے حصار سے باہر آئیں۔ ایثار اور مادری زبان کے لئے جدوجہد کے لئے خود کوتیا رکرلیں ۔ جناب محمد ظفراللہ خان سرپرست یاران ادب بیدر نے اپنے صدارتی خطاب میں کہاکہ یونیسکو کے مطابق ہر دس سال میں 5زبانیں ناپید ہوجاتی ہیں ۔ جس کی وجہ اپنی اپنی زبان سے اہل زبان کی بے اعتنائی اور برسراقتدار کا زبانوں پر ظلم ہوتاہے۔ موصوف نے اردو کی عالمگیریت کو بتاتے ہوئے کہاکہ جنوبی امریکہ میں’’سورینام‘‘ نامی ملک کی دوسری سرکاری زبان اردو ہے۔ ماریشیس میں بھی خاطر خواہ افراد اردو بولتے ، لکھتے اور پڑھتے ہیں ۔جناب صدر نے بھی نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ اردو کے لئے قربانی دینے تیارہوجائیں ۔ اور آج کی یہ تقریب جو مادری زبان سے متعلق ہے درس دیتی ہے کہ ہمیں اپنی مادری زبان اردو کی ترقی وترویج کے لئے سوچناہوگا۔ پروفیسر رؤف خوشتر نے اردو کے ضمن میں تحریر کیاگیا افسانہ بعنوان ’’دیکھابھالا دلدل‘‘ پیش کیا۔ جس کو کافی سراہاگیا۔ جناب یوسف خان نے بھی اظہارخیال کیا۔ جناب محمد امیرالدین امیرؔ نے تلاوت کلام پاک پیش کیا ۔ استقبالیہ تقریر میں محمدیوسف رحیم بیدری نے بتایاکہ مادری زبان کی چاشنی کو پیداکرنے کے لئے حضور اکرم ﷺ کو ان کی کم عمری میں دیہات بھیجا گیا۔ عربوں کا قاعدہ تھاکہ وہ اس طرح اپنے زبان کی حفاظت کرتے تھے۔ آج ہمیں بھی اپنی مادری زبان کی حفاظت کرنے اور اپنی نسل کو اس سے آراستہ وپیراستہ کرنے کی ضرورت ہے۔ محمدیوسف رحیم بیدری نے نظامت کی اور شکریہ اداکیا۔ڈاکٹر نعیم الدین ، محمدنعیم الدین کاریگر مالک میجک سونف ،عرفان پٹھان ، عمران خان، محمد قیصر مدرس، سخاوت علی سخاوت ؔ ، اور دیگر شریک تقریب رہے۔ 


 

شکایتوں کے ازالہ کے لیے عوام کی پہنچ اوپری سطح تک ضروری: ڈاکٹر اومکار متل

نئی دہلی۔21فروری (فکروخبر/ذرائع) ’’آج کل سیاست میں گڈگورننس یعنی بہتر حکمرانی لفط کا بہت استعمال ہورہاہے، لیکن یہ کیاہے اور حکومت کے سامنے اس کو لیکر کس طرح کے چیلنج کا سامنا ہے۔ اس کو جاننا بہت ضروری ہے تاکہ اس بہتر حکمرانی میں شہری سہولیت ممکن ہوسکے‘‘۔ ان خیالات کا اظہار آج یہاں انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز (آئی او ایس) کے کانفرنس ہال میں سول سوسائٹی نیٹ ورک کے صدر ڈاکٹر اومکار متل نے ’شہری علاقوں کا نظم ونسق اور بلدیاتی تقسیم کا چیلنج اور شہریوں کی شمولیت‘ کے موضوع پر لیکچر دیتے ہوئے کیا۔ انھوں نے کہا کہ 1857میں جب جنگ آزادی کی لڑائی ہورہی تھی اس وقت ملکہ وکٹوریہ نے گڈگورننس دینے کی بات کہی تھی لیکن ہندستان نے گڈگورننس کے بجائے سیلف گورننس کی بات کہی۔ یہ لفظ چونکہ حکمرانی سے براہ راست جڑا ہوا ہے اسی لیے ورلڈ بینک نے بھی گڈگورننس کے لیے 6نکات کو فوکس کیا ہے اور یہ مانا ہے کہ جس ملک میں ان نکات پر عمل ہورہا ہوگا وہ گڈگورننس کی صف میں شامل مانے جائیں گے۔ وہ نکات اس طرح ہیں:(۱)عوام کی آواز جو الیکشن کے ذریعہ سامنے آتی ہے یعنی وقت مقررہ پر انتخابات کا ہونا۔ (۲)سیاسی استحکام، ایسی حکومت قائم ہوجو مستحکم ہو اور اس کے زمانے میں تشدد نہ ہو۔ (۳)شہری سہولیات جس میں بنیادی شہری چیزیں مثلاً بجلی، پانی، تعلیم وغیرہ سب ٹھیک ہو (۴) بجلی ودیگرسپلائی اداروں پر نگرانی کے لیے ریگولیٹری اتھارٹی ہو (۵)کرپشن کے خلاف ایکشن ہو اور (۶) برابری یعنی مزدوروں اور کسانوں کو ان کی محنت پر مناسب اجرت ملنی چاہیے اور اقتدار میں رہنے والوں کو اس کی اجازت نہیں ہے کہ وہ عیاشی کریں۔انھوں نے کہا کہ اس پس منظر میں اگر ہم دہلی کا جائزہ لیں تو یہاں عوامی سہولیات کی ڈلیوری اور کرپشن کا معاملہ نمایاں طور پر سامنے آتا ہے، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ حاصل نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ آگے بڑھنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دہلی کی حیثیت کیا ہے اور اس پر گزشتہ 15/10سال میں کیا بحث ومباحثہ ہوا۔ 1857میں دہلی ایک مکمل صوبہ تھا۔ جب یہاں انگریزوں کے خلاف لڑائی شروع ہوئی تو انگریزوں نے لڑائی کے بعد اس صوبے کو ختم کر دیا اور اس کے کچھ حصے کو ہریانہ میں ملادیا کچھ کو اِدھر اُدھر کردیا۔ 1991میں حکومت نے اس کا جا ئزہ لینے کے لیے سرکاریہ کمیشن بنایا۔ اس کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ دینا ممکن نہیں ہے بلکہ ایک ایسی ریاست ہو جو مرکز کے تحت ہو۔ جس کے بعد 1993میں آئین میں ترمیم کرکے اسے آدھی ادھوری ریاست کا درجہ دے دیا گیا۔ اس کی وجہ سے مسائل کا انبار ہے۔ دہلی کے پاس نہ ہو تو DDAہے، نہ زمین ہے اور نہ پولیس، حتی کہ میونسپل کارپوریشن بھی اس کی ماتحت نہیں ہے وہ براہ راست شہری وزارت کو رپورٹ کرتا ہے۔ڈاکٹر متل نے کہا کہ آزادی کے وقت دہلی کی آبادی ڈیڑھ، دو لاکھ تھی اور اسی حساب سے میونسپل وارڈ بنائے گئے تھے لیکن آج دہلی کی آبادی ایک کروڑ 70لاکھ ہوگئی ہے۔ اس آبادی تک شہری سہولیات کی دستیابی کے لیے ضروری کہ 70اسمبلی حلقوں میں 272وارڈ بنائے جائیں اور ہروارڈ میں حکومت کا نمائندہ عوامی ذمہ دار آفیسر کے ساتھ بیٹھے تاکہ آنے والی شکایتوں کا ازالہ کرسکے۔ انھوں نے کہا کہ نظام حکومت میں اوپر سے نیچے احکامات جاتے ہیں لیکن نیچے کی شکایتوں کو اوپر پہونچانے کا کوئی نظم نہیں ہے۔ عوامی شمولیت کیے لیے عوام کی شکایتوں کو اوپری سطح تک پہونچانا ضروری ہے۔انھوں نے کہا کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ دہلی حکومت فنڈ کے معاملے مرکز پر منحصر ہے اور اس کے بغیر کوئی کام نہیں کرسکتی ان کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ دہلی کی حکومت کا بجٹ 36ہزار کروڑ روپے کا ہے اور یہ وہ بجٹ ہے جس کے لیے فنڈ خود دہلی حکومت نے اپنے ذرائع سے حاصل کیا ہے۔ اس میں وہ مرکزی حکومت پر وہ منحصر نہیں ہے۔ کیونکہ دہلی کی برسراقتدار پارٹی کو عوامی مینڈیٹ ملا اس لیے اسے کسی طرح کی تساہلی کے بغیر کام کرنا چاہیے تاکہ گڈگورننس کا اظہار عملی طور پر ہوسکے۔آئی او ایس جنرل سکریٹری پروفیسر زیڈ ایم خاں نے پروگرام کی صدارت کی اور نظامت کے فرائض مشتاق احمد ایڈوکیٹ نے انجام دیے۔ دیگر شرکاء میں آئی او ایس وائس چیئرمین پروفیسر رفاقت علی خاں، سریندر پنوار، فرمان ریاض، خالد ندیم خاں، عمران غنی، زبیر خاں، وٹھولیبو، حبیب اختر، سلطان سراج الدین، محمد عارف احمد، عزیز الرحمن، ایس ایم صدیقی، تاجدار صدیقی، ذیشان خاں، راکھی گپتا اور سمن ناز وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔

Share this post

Loading...