بھٹکل:ہدوستان کے دہشت گردوں کا مرکز؟؟


جس شہر کو دہشت گردی کا شہر کہا جاتا ہے وہاں میں رات کے آخری پہر پہنچا۔ کونکن ریلویس کی دھیمی پیسنجر ٹرین مسلسل مانسون برسات کی وجہ سے دورانِ سفر وقفے وقفے سے رک رہی تھی۔ پلیٹ فار م پر سوائے کالے سمندر (اندھیری رات )کے کچھ نہیں تھا ۔ کچھ مسلم خواتیں جو کہ اپنے کالے نقاب میں چہرے اور سر کو چھپائے ہوئے ہیں، اور کچھ سفید پوش مرداحباب......میں محسوس کیا کہ میں سعودی عربیہ میں اُتر رہا ہوں۔ 
سہیادری پہاڑ وں (مغربی گھاٹ) کے دامن میں گردش کھاتے ٹیلے شہر کو تین جانب سے گھیرے ہوئے ہیں اور دوسری جانب بحرِ عرب ۔بھٹکل ایک خوشحال (دولت مند) شہر ہے جس میں فاصلے دار نادر و دلکش مکانات، بے قائدہ پھیلے ہوئے گھر، اور خوش وضع تجارتی کامپلیکس، یہ شہر کاروار اور منگلور شہر کے بیچ میں اُترکنڑا ضلع میں آتا ہے۔ یہ شہر تعلقہ بھی ہے۔ یہاں کی آبادی ساٹھ ہزار ہے۔ اکثریت مسلمانوں کی ہے، یہ شہر آج ہندوستان میں دہشت گردوں کے مرکزی اڈہ اور انڈین مجاہدین کے آشیانے سے مشہور ہے۔ 
قدیم تاریخی عمارتوں سے آراستہ ، اور منعکش کردہ روشن یادگار حویلیاں اس شہر کی گہری تاریخ کا پتہ دے رہی ہیں۔ یہ ترقی یافتہ شہر امن کا کینواس تھا۔دو دہائی پہلے یہ شہر خداترس اور مالدارتھا۔خوشخالی، مذہب میں پختہ ایمان،یکجہتی و اتحاد،بہت پہلے ہی سے اس شہر کا نشانِ تصدیق تھا۔ مسلم، ہندو،عیسائی اور جین یہاں صدیوں سے امن و آشتی سے رہتے آرہے تھے۔ اس جھولتے ہوئے جاذب نظر شہر کا تہذیب وتمدن پہلے ہی سے گھلا ملا ہوا تھا۔عرب اور مقامی لوگوں کی یہ نشانِ علامت ہے۔ یعنی دو اکثریتی طبقے ہندو اور مسلم آپس میں مل گئے۔یہاں عیسائی اور جین خاندان بھی تھے۔ کچھ جین خاندان کے لوگ اب بھی اپنے اس حکمرانی کے دورکو یاد کرتے ہیں۔
عبدالملک مروان کی خلافت کے دوران عراق کے ایک بدنام گورنر کے ظلم سے بچنے کے لیے عرب تاجروں کا ایک طبقہ آٹھویں صدی کے اردو گرد یہاں آکر آباد ہوگیا اوروہ لوگ خود کو نوائط یا پھر نئے آنے والے افراد کے نام سے خود کو موسوم کیا اور آج بھی وہ خود کو نوائط مسلم کے نام سے ہی بلائے جاتے ہیں، ان کی اگلی پچھلی تاریخ جاننے کے لئے ان کا ایک ویب سائٹ بنام bhatkallys.comموجود ہے۔ 
یہ نوائط طبقہ دراصل تجارت کی غرض سے سمندر میں بکثرت آمدورفت رکھنے والے تاجروں کی دین ہے۔آبادی کے ایک بڑی فیصد کے قیام اور معیشت کو ٹھوس بنانے میں ان کا کلیدی رول رہا ہے۔جب کہ بشمول ہندو ، نامدھاری اور اڑگا کا اکثریتی طبقہ یہاں موجود ہے۔ دیگر علاقوں سے ایک بہت بڑا فرق یہ ہے کہ یہاں کے مسلمان ہندوؤں کے مقابلے خوشحال اور اہلِ ثروت ہیں۔حد یہ ہے کہ مارکیٹ جیسے علاقوں میں شاید ہی کوئی ہندو گھر موجود ہو۔جہاں مسلم رہائش پذیر ہیں وہاں صرف چمکتے دمکتے مکانات موجود ہیں۔بیرونی (خلیجی) ترسیلاتِ زر کے مدد سے بڑے بڑے بنگلے اور مکانات یہاں اپنا ڈیرہ جمائے ہوئے ہیں۔میں نے یہاں تین دن گذارے یہاں واقع حویلیاں، پہاڑی بنگلے، کوٹھیان، فرنگی ٹائپ بنگلے اور فرینچ ولاس سب کے سب مسلمانوں کے زیرِملکیت ہے۔ملک بھر میں میرے سفر کے دوران میں نے ایسے بنگلے اور عالیشان مکانات کہیں نہیں دیکھے۔ شہر بھٹکل معمار اور ماہرِ تعمیرات کا خوابوں والا شہر ہے۔ سمندر کے جالی ساحلی قطعے میں بہترین ساحلی مکانات تعمیر کئے گئے ہیں، ان میں سے اکثر مکانات فرینچ رویریا ، لاس پالماس اور فلوریڈا کے مالکان دیکھیں تو اچھنبے میں پڑ جائیں گے۔ سہیادری پہاڑوں میں واقع کچھ ٹیلوں پر بھی مکانات موجود ہیں، اس سے خوشحالی واضح ہوجاتی ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ کچھ جائداد ابھی خالی ہیں۔ مالکِ مکانات یا تو بیرون ملک مقیم ہیں یا پھر اس طرح کے عالیشان تعمیرات کے ذریعہ اپنے وجود اور حیثیت کا احساس دلا رہے ہیں۔ اس کے برعکس گندی عمارتیں اور قوس نما مکانات یہاں ہندو علاقوں کے نشانِ ذکر ہیں۔ نوائط قوم نے بھٹکل کے ارد گرد قریب 5000ایکڑ زمین خریدی ہے۔ وہاں تبدیلی کے ارادے سے خلیج سے لوٹنے والے احباب مزید اراضی خریدیں گے۔ 
بھٹکل اپنے محلِ وقوع اور اسٹریٹجک ،مغربی ساحل پر واقع ہونے کی وجہ سے صدیوں سے یہ شہر مختلف حملہ آور اور آبادکار وں کا پسندیدہ شہر رہا ہے۔یہ چھوٹا سا قصبہ مختلف خاندانوں اور حکمرانوں کے عروج و زوال کا گواہ ہے۔عالمی شہرت یافتہ سیاح ابن بطوطہ اپنے سفرنامے میں اس شہر کا تذکرہ کیا ہے۔یہ شہر 1291سے 1343تک ہوئسالاسلطنت کا ایک حصہ تھا بعدمیں جاکر یہ وجئے نگر ا سلطنت کے زیرِ نگیں آگیا۔سلطنت کے باگ ڈور جب ختم ہوئی تو ہاڈولی کے جین سلوا حکمرانوں نے اس انتہائی مرغوب شہر پر قبضہ کرلیا۔وہ اپنے دورِ حکومت میں یہاں کئی جین مندر اور بسڈی تعمیر کئے ، اب بھی ان مندروں کو یہاں دیکھا جاسکتا ہے۔16ویں صدی کے ابتدائی سالوں میں اس شہر پر پرتگالیوں کا قبضہ تھا۔یہ بتدریج کیلدی حکمرانوں کے بعد حیدرعلی اور ٹیپوسلطان کے قبضے میں رہا اور 1799میں ٹیپو سلطان (شہیدؒ ) کے بعد برطانوی نے اس شہر کو سنبھالا۔ ٹیپو سلطان نے اس شہر سے اپنے خصوصی تعلقات کا اشتراک بنائے رکھا اور پھر گواہی کے طورپر شہر کے عین قلب میں مسجد بنائی۔
یہاں موجود آثارِ قدیمہ کے خزانے شہر بھٹکل کی مالداری کو جلدو ں میں بیان کررہے ہیں۔ موڈ بھٹکل میں موجود کیتھا پیا نارائن مندر 1545ء میں کیتھا پائی کی جانب سے بنا یا گیا ہے ایک گوا سونار کے ہاتھوں۔ اور یہ نمونے اس وقت کے سب سے زیادہ غیر معمولی آرکیٹکچر کے نمونے تھے۔ بھٹکل کے قدیم تاریخی عمارتو ں میں پارشونتا جین بسدی شہر بازار کے مین روڈ پر موجود ہے۔ بھٹکل صدیوں پرانے تاریخی عمارتوں کا گھر ہے ، جیسے جامع مسجد، خلیفہ مسجد، سلطانی اور نور مسجد ۔ 
انجمن حامئ مسلمین کی جانب سے 1919میں قیام کردہ اہم تعلیمی ٹرسٹ شہر میں اپنے معروف تعلیمی اداروں کے جال کو پھیلایا ہوا ہے تاکہ تمام سماج کے لوگوں میں تعلیم عام کیا جاسکے۔ انجمن انجینئرنگ کالج اپنے ٹیکنکل تعلیم کی عمدگی کی وجہ سے ملک بھر میں مشہور ہے۔اور جامعہ اسلامیہ مذہبی تعلیمات کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ جب کہ مجلس اصلاح وتنظیم مسلم کمینیوٹی میں بہترین فلاح و بہبودی کے کام انجام دے رہا ہے۔ یہاں کچھ ایسے تعلیمی ادارے ہیں جس کو ہندو کمیونٹی کے لوگ چلاتے ہیں، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ یہاں انجمن مسلمین میں ہندو طلباء نہیں پڑھتے جبکہ ودیا بھارتی اور اس جیسے نجی اسکول جس کو ہندو چلاتے ہیں وہاں مسلم طلباء نہیں پڑھتے۔ یہ فرق یہاں واضح نظر آتا ہے۔ 
دونوں طبقوں میں آزادانہ طورپر ایک دوسرے سے باہمی اشتراک نہیں ہے ، اگرچہ کہ دونوں طبقوں کا انحصار ایک دوسرے پر ہے۔ مسلم گھروں میں 90فیصد نوکر ہندو طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں، اور آٹور کشہ کے ڈررائیورکی تعداد بھی ہندوؤں کی زیادہ ہے۔اس کے برعکس یہاں موجود اسلامی بینک غریب ہندوؤں کو سود سے مبرا قرضے فراہم کرتا ہے۔ ہوٹل کولا کے ایک روم بوائے نے بتایا کہ اس کا نام شاہ رخ خان تھا۔ وہ اخبار فرو ش بھی تھا ویٹر بھی اور موچی، بھی، مجھے لگا کہ یہاں چیزوں کومعلوم کرنا آسان ہے۔ کوئی بھی نہیں چاہتا تھا کہا اس کا نام مضمون میں آئے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جتنے بھی لوگوں سے میں ملا اور پوچھ تاچھ کی سب کی درخواست تھی کہ ان کا نام نہ لیاجائے اور نہ ہی مجھے تصویر لینے کی اجازت دی گئی۔ مضمون میں موجود کئی نام بدل دئے گئے ہیں تاکہ ان کے احساسات کا احترام کیا جاسکے۔
ہر مسلم خاندان کے کم سے کم د و ممبر عرب ملک میں برسرِ روزگار ہیں، یہاں کے ہر مقامی نوجوان کا خواب ہوتا ہے کہ وہ گلف جائے۔ جس کی عمر 18کو پار کرگئی ا سکے پاس پاسپورٹ کا ہونا لازمی ہے۔ اور وہ اس کوجلد سے جلدحاصل کرنے کے لیے اپنے ریکارڈ کلین اور صاف رکھتے ہیں۔ جرائم کا تناسب لگائے جائے تو ملک بھر میں بھٹکل میں جرائم کی شرح کم ہے۔

Share this post

Loading...