غیر مضطرب (پرسکون) جاذب نظر اور نیم خوابیدہ بھٹکل ، ریاستِ کرناٹک ضلع کاروارکا ساحلی شہر ہے۔ یہ سلیپر سیل کے شکل میں غیر محفوظ علاقہ ہے جہاں آئی ایس آئی اور داؤد ابراہیم کے ایجنٹ پناہ لئے ہوئے ہیں۔1992اور93کے فرقہ وارانہ فسادات میں اس نیم خوابیدہ شہر کے پہلے سے ہی غالب نوائط مسلم قوم نے بیرونی مخالف طاقتوں اور اندرونی شدت پسند عناصر کے ساتھ ہاتھ جوڑ کر ، اتحا، سالمیت اور بھارت کی سلامتی کے لیے خطرہ لے آئے۔اب بھٹکل دہشت گردوں کے لئے جنت بن گیا تھا جہاں وہ بے خوف ہوکر آنے جانے لگے۔ان باتوں کا اظہار ، کرناٹک ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس کیدمباڈی جگن ناتھ شیٹی نے اُدئے انڈیا اخبار سے فون پر بات کرتے ہوئے کیا۔
1992-93کے فرقہ وارانہ فسادات جو بھٹکل میں پیش آئے اور بیس دن کے فسادات کے دوران یہاں سینکڑوں کے تعداد میں جانیں گئیں اور قریب سوکروڑ مال وجائداد، اور اثاثے کو نقصان پہنچایا گیا۔ اس موقع پر جسٹس شیٹی کو حکومت نے انکوائری کمیشن کے لیے نامزد کیا تھا اور اس انکوائری میں وہ تنہا ہی تھے۔ (One-man commission) دورانِ تحقیقات جسٹس شیٹی کو یہ تمام تفصیلات اور حقائق حاصل ہوئی جس سے دنیا اب تک نابلد تھی۔
دراصل یہ رپورٹ ریاست کے پولس انٹیلی جنس ونگ ، کسٹم اور ضلع انتظامیہ کی جانب سے دی گئی تھی کہ1993کے ممبئی بم دھماکوں میں جو آر ڈی ایکس استعمال کیا گیا تھا، وہ آر ڈی ایکس پہلے بھٹکل لایا گیا پھر یہاں سے رتناگری کے راستے ممبئی پہنچایا گیا۔ ہیومن رائٹس کے نام پر سہراب الدین کے انکاؤنٹر پر جو واویلا مچایا گیا اور نریندرمودی کو اس سلسلہ میں دن بدن تعذیری شکنجے میں کساجارہا ہے ، دراصل یہ وہی سہراب الدین ہے جس نے آ ر ڈی ایکس کو ٹرانسپورٹ کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ جو 93کے ممبئی بم دھماکوں کے لئے استعمال کیا گیا تھا۔ اس کو بھی جسٹس شیٹی نے ہی کہا تھا۔
جسٹس کے جگن ناتھ شیٹی کمیشن رپورٹ صفحہ364اور ویلیوم (جلد) 2کے مطابق اس وقت کے کسٹم اسسٹنٹ کمشنر وی جی دواکرکہتے ہیں کہ اس موقع پر مجھے اطلاع دی گئی تھی کہ ممنوعہ ہتھیارات اور آر اڈی ایکس بھٹکل ساحل پر اسمگل ہونے والے ہیں۔معمول کے مطابق میں نے اس بات کی اطلاع ڈی جی (ڈائرکٹر جنرل آف کسٹم) کو دی۔اور واپسی میں پولس کو بھی احتیاطی تدابیر اور حفاظتی انتظامات کے لیے کہا گیا ۔
یہ بیان صرف اسسٹنٹ کمشنر آف کسٹم کا ہی نہیں بلکہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر سری واستوا جو کہ کمیشن بٹھانے سے پہلے ان کو عہدے سے ہٹا دیا گیا تھااس نے بھی بیان دیا ہے کہ ریاست کے انٹلی جنس سے مجھے یہ اطلاع دی گئی تھی کہ کچھ دھماکہ خیز مادہ بھٹکل ساحل پر آنے والا ہے۔ یہ انفارمیشن ریاستی انٹلی جنس کو ریاستی حکومت کی جانب سے تحریری طور پر دی گئی تھی۔ یہ تحریر ی انفارمیشن دستاویز جو مجھے دی گئی تھی وہ ڈی سی اور ایس پی دفتر میں موجود ہے۔ اطلاع موصول ہونے کے بعد ہم نے پٹرولنگ اور چھان بین شروع کی،ا ور بھٹکل کسٹم ڈپارٹمنٹ کو بھی چوکنا کیا گیا۔ہم سمجھ رہے تھے کہ آرڈی ایکس ٹائپ کا دھماکہ خیز مادہ وہ بھٹکل ساحل پر آئے گا،اور انٹلی جنس سورسز بھی یہی کہہ رہے تھے مگر اطلاع میں اس بات کو نہیں بتایا گیا تھا کہ کس جگہ استعمال ہوگا۔ (صفحہ 367م جلد 2۔۔کمیشن رپورٹ)
اُدئے انڈیا اخبار نے رپورٹ کے تمام چار جلدوں کو کھنگالا،جو کہ جسٹش کیدمباڈی جگن ناتھ شیٹی کی جانب سے ریاستی حکومت میں پیش کی گئی تھی۔ اسی طرح کا بیان یا پھر یوں کہیے کہ سخت حلفیہ بیان آننت کمار ہیگڈے کی جانب سے دیا گیا ہے جو اس وقت بی جے پی کے ایم پی ہیں، اس کی حقیقت ایک ہندو فدوی کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ’’ آر ڈی ایکس ہندوستان کے مختلف حصوں سے لایا گیا اس میں سے ایک سمت، (جہت) بھٹکل ہے۔ آر ڈی ایکس کو درآمد کئے جانے میں آئی ایس آئی اور داؤد ابراہیم کا ہاتھ ہے تاکہ وہ ہندوستان کے امن میں خلل ڈال سکتے۔ ( صفحہ368، جلد 2،کمیشن رپورٹ )
کمیشن رپورٹ صفحہ369جلد 2میں جسٹس شیٹی نے اس بات کا بھی خلاصہ کیا ہے کہ تین گواہوں ( اسسٹنٹ کمشنر ،کسٹمس، ڈی سی کار، اور آننت کمار ہیگڈے ) سے بشمول آر ڈی ایکس ، تمام نکات پر مسلم میموریالسٹ (Memorialists) وکیل جناب بشیر احمد کی جانب سے سخت کراس جانچ کی گئی۔اس طرح ، بھٹکل میں آر ٹیکلس کی اسمگلنگ کے طور پر گواہ روژن کو قبول کیا ہے۔ان گواہوں (پولیس) کے وکیل سیتا راما شیٹی کی طرف سے بھی کراس جانچ کی گئی ہے جب کہ پولس اہلکار کو اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
اس وقت پرسنا کمار جو کہ کسٹم آفسر ہیں ان کی جانب سے ملامت کیا جانا فطری طور پر ٹھیک،معینہ ، صاف اور قطعی ہے۔رپورٹ کے صفحہ نمبر 371جلد 2میں ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا ہے کہ ہم کو وائر لیس کے ذریعہ یہ پیغام موصول ہوا تھا کہ ممبئی بیس کے اسمگلرس ہتھیار ، آر ڈی ایکس اور گولا بارودبرآمد کررہے ہیں، اوریہ سب پاکستان سے ہورہا تھا۔مغربی ساحلی پٹی پر کہیں بھی لایا جاسکتا ہے۔ ہم کو یہ پیغام فروری 1993کے پہلے ہفتہ ملا، اس میں کوئی شک نہیں کے اسی سال کے مارچ مہینے میں ممبئی دھماکے پیش آئے، آر ڈی ایکس ٹھیک ایک مہینے بعدبھٹکل لایا گیا اور پھر یہاں سے سہراب الدین نے ممبئی کو آرڈی ایکس سپلئے کیا۔
بھٹکل کے مالدار اور اہلِ ثروت نوائط مسلمان چاہتے تھے کہ بھٹکل شہر ہندووں سے پاک کرکے صرف مسلمانوں کا بن کر رہے ،اس طرح کا بیان دینے والے کوئی اور نہیں بلکہ ڈپٹی کمشنر سری واستوا ہیں۔ صفحہ نمبر 319جلد نمبر 2میں یہ بیان تحریر کیا گیا ہے ۔صفحہ نمبر 9میں درج کیا گیا ہے کہ ایک قوم کے لوگ چاہتے تھے کہ دوسرے قوم کے لوگوں کو نکال باہر کیا جائے ۔ اسی بنا پر میں کہتا ہوں،اور کہا ہے کہ یہاں پر اکثر عمارتوں اور تجارتی اداروں کے مالک مسلمان ہیں اور ہندو کرایہ دار کی حیثیت رکھتے ہیں۔میں ایک بار پھر کہتا ہوں کہ یہاں کی مسلم قوم ہندوؤں کو نکال باہر کرنا چاہتی تھی۔
مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے کئی عناصر کی جانب سے وطن مخالف سرگرمیاں جاری ہیں،جسٹس کے جے شیٹی کمیشن کی رپورٹ بڑے پیمانے کا سودا ہے۔ صفحات،324,325اور 326 میں گواہ بیان دیتا ہے کے26جنوری کے موقع پر انجمن ہائی اسکول گراؤنڈ میں موجود قومی جھنڈے کے پول پر کالا جھنڈا لہرایا جاتا ہے اور پول کو کالے گریس سے لیپا پوتا جاتا ہے۔جب کہ یہ وہ موقع ہوتا ہے کہ سارا ملک یومِ جمہوریہ کی خوشیاں مناتا ہے۔ اور سلطانی محلہ جو کہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے یہاں ہندو جانے کی ہمت نہیں کرتے،یہاں کے دیواروں میں ’’پاکستان زندہ باد ‘‘ انڈیا مردہ باد‘‘ کے نعرے لکھے جاتے تھے۔
مسلم فدوی مشتاق احمد کی جانب سے صفائی دئے جانے کی بات بھی ہندو مخالف کارروائی کی عکاسی کرتی ہے، یہ صفائی جسٹس شیٹی کو حیران کردیا ۔ انہوں نے اپنے رپورٹ میں درج کیا ہے کہ (صفحہ نمبر328جلد 2) یوم جمہوریہ کے موقع پر کالے جھنڈے کا لہرایا جانا یا پھر پول کو کالے کلر سے رنگنا دراصل یہ غصہ اور احتجاج ہے اس بات پر کہ مرکزی حکومت نے مسلمانوں سے کیا گیا وعدہ کہ بابری مسجد کو دوبارہ بنایا جائے گا ، ا س کوپورا نہیں کیا۔ جو بھی ہو جن احتجاجات کی ڈیموکریٹک سیٹ اپ پر اجازت دی گئی ہو جیسے کالے جھنڈے کا لہرانا یا کالے رنگ کا رنگنا، انجمن ہائی اسکول گراؤنڈ میں، یہ قومی جھنڈے کی بے عزتی نہیں ہے۔
فرقہ واریت کے نتیجہ میں بالآخر بی جے پی ایم ایل اے ڈاکٹر چترنجن کی جان لے لی۔جو ایک عام آدمی کے چہیتے تھے، جودونوں طبقے ہندو اور مسلم سے تعلق رکھتا ہے۔ہزاروں کی تعداد میں مسلم خواتین نے ڈاکٹر چترنجن کے موت پر خاموشی سے آنسو بہایا۔ جنہوں نے اپنے اچھے اخلاق، مسکراتے چہرے کے ساتھ ہزاروں مریضوں کا علاج کیابلا فرق مذہب و ملت۔
ڈاکٹر چترنجن کے سرد خون والے قتل کو پورے 18سال گذر چکے ہیں(1995) وہ مجرم جس نے ڈاکٹر چترجن کا قتل کرنے کے لیے بندوق چلائی وہ کبھی پکڑا نہیں گیا۔ مسلم طبقہ سے تعلق رکھنے والے کئی مشتبہ نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا۔مگربعد میں پولس نے ان کو رہا کردیا۔ ڈاکٹر چترنجن کے بیٹے ڈاکٹر راجیش چترنجن کہتے ہیں کہ ابتدائی تفتیش کے اہم ثبوت مقامی پولس کی جانب سے تباہ کردئے گئے۔ اس کے بعد یہ معاملہ سی اوڈی پھر سی بی آئی کے حوالے کیا گیا۔ مگر اب تک کچھ بھی ہاتھ نہیں لگا ہے۔
جہادی دہشت گردوں نے بھٹکل کو ایک لیباریٹری کے طور پر استعمال کیا تاکہ وہ یہاں کہ بنیادی ڈھانچے کی سہولیات کو جانچااور عملے کا محاسبہ کیا جائے۔ تاکہ وہ اپنے شیطانی ارادوں کے ساتھ اپنے مذموم سرگرمیوں میں اس کا استعما ل کیا جائے، سیکولر اور نام نہاد سیکولر حکومتوں کی من مانی غفلت اور بھول کی قیمت ملک چکار ہا ہے۔
’’اسی میگزین میں ایک اور مضمون بھی شائع کیا گیا ہے ، انشاء اللہ عنقریب اس کا بھی ترجمہ قارئین کے سامنے پیش کیا جائے گا،ملحوظ رہے کہ فکروخبر ایسے ملک کے مختلف اخبارات پر اپنی نظر رکھے ہوئے ہے ۔‘‘
![]()
Share this post
