چہرے کو جھریوں نے بھیانک بنادیا ................ آئینہ دیکھنے کی بھی ہمت نہیں رہی

مگر وہیں ایک روشن قندیل جو اس زبان کو زندہ رکھنے کے لئے کہیں کہیں وقتاً فوقتاً اپنے انوکھے انداز میں روشن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ایسی ہی ایک مثال شہر بھٹکل میں کل رات منعقدہ ایک تمثیلی مشاعرہ کی ہے ۔ بہادر شاہ ظفر کے دربار میں مشاعرہ سننا کون پسند نہیں کرے گا۔ جہاں اپنے اپنے وقت کے مشہور معروف شعراء موجود ہوں، سنتری اور درباریوں کے ایک جمِ غفیر کے بیچ ’’بہت خوب‘‘ واہ واہ‘‘ دوبارہ ارشاد کے نعرے جب زبان کے نوک سے نکل کر فضاکو چیرتے ہوئے کانوں سے ٹکراتی ہیں تو شعر کے مفہوم کو سمجھنے میں اور زیادہ ممدو معاون ثابت ہوتی ہیں۔ دن بھر کی تھکان اور پھر گرمی کے تپش سے پریشان لوگ چاندنی رات میں کھلی فضا گرم لو کے آمیزش کے ساتھ کبھی کبھی چہرے سے لمس کرجاتی ہے تو شعرکے مفہوم کی گرمی مزید جذبات میں دھکیل دیتی ہے ۔ 
اکبر الہ آبادی کا کلام عکراش اکرمی نے جب یوں کہتے ہوئے پیش کیا 
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام 
وہ قتل بھی کرتے ہیں توچرچانہیں ہوتا 
اللہ بچائے مرضِ عشق سے ہم کو 
سنتے ہیں کہ یہ عارضہ اچھا نہیں ہوتا ............
تو پھر سامعین کی زبان جذبات سے کیوں عاری ہو
وہیں جب رئیس المتغزلین کے خطاب سے نوازے گئے شاعر جگر مراد آبادی کاکلام شاہد ڈانگی نے یوں پیش کیا
یہ دن بہار کے اب کے بھی راس آنہ سکے 
کہ غنچے کھل تو سکے کھل کے مسکرانہ سکے 
میری تباہی دل پر تو رحم کھا نہ سکے 
جوروشنی میں رہے روشنی کوپا نہ سکے 
تو روشنی کا حقیقی مزہ کیوں نہ لیا جائے ؟
ابوالاثر حفیظ جالندھری کی تمثیل عضمان ہلارے نے جب یہ کہتے ہوئے داد وصولا 
اب ہوش حالِ زمانہ اب معلوم ہوا 
سب فرزانے میں دیوانہ اب معلوم ہوا 
زندہ مردے ناچ رہے ہیں اپنی قبروں پر 
ایک نیا رقصِ مستانہ اب معلوم ہوا 
رقص مستانہ کی اصل تصویر سامنے کیوں نہ آئے ؟؟
مشہور شاعر خمار بارہ بنکوی کا کلام عبداللہ شریح نے بڑی دل نشیں انداز میں پیش کرتے ہوئے سامعین کی نظریں جب اپنی جانب کھینچ لی 
ویسا نہیں ہے کہ ان سے محبت نہیں رہی 
جذبات میں وہ پہلی سی شدت نہیں رہی 
چہرے کو جھریوں نے بھیانک بنادیا 
آئینہ دیکھنے کی بھی ہمت نہیں رہی 
اللہ جانے موت کہاں مرگئی خمارؔ 
جب مجھ کو زندگی کی ضرورت نہیں رہی 
چہرے کی جھریوں سے موت کی قربت کا احساس کیوں نہ ہو؟
جناب ڈاکٹر کلیم عاجز کا کلام انہی کے درد اور کرب کے ساتھ ابراہیم گنگولی نے جب پیش کرنے کی جسارت کی 
کس ناز سے کس انداز سے تو ہائے چلو ہو 
روز ایک غزل ہم سے کہلوائے چلے ہو 
رکھنا ہے کہیں پاؤں تورکھو ہو پاؤں 
چلنا ذرا آیاہے تو اترائے چلو ہو 
اترا کے چلنے والے پر ان کی حقیقت کیوں نہ کھل جائے 
ان کے علاوہ اسد اللہ خان غالب کے اشعار سید حسن بافقی نے ،بہادر شاہ ظفرکے اسعد رکن الدین نے، میرتقی میراور راہی بستوی کے عمارقاضی نے، ڈاکٹر علامہ اقبال کے عفانی کھروری ،جوش ملیح آبادی کے تبریز ٹی کے نے، ماہرالقادری کے حسن حبیب نے اور بھٹکل کے مشہور ومعروف شاعر جناب محمد حسین فطرت وموجودہ دور میں اپنے نام روشن کرنے والے ڈاکٹر ماجد دیوبندی کے اشعار جب انہیں کے انداز میں پیش کیا جائے تو بھلا کیوں نہ سامعین محظوط ہوں ۔ جامعہ اسلامیہ جامعہ آباد بھٹکل کے طلباء کی تنظیم اللجنۃ العربیہ کی تنظیم واقعی قابلِمبارکباد ہے اور بالخصوص سال بھر اس کی نگہبانی کرتے ہوئے اس میں نوعیت لانے والے اللجنۃ کے مشرف مولانا افضل ندوی بھی قابلِ مبارکباد ہیں کہ ایک بے مثال تمثیلی مشاعرے کے ذریعہ اُردو کی خدمت میں اپنا بھی نام درج کرایا۔ ملحوظ رہے کہ تلاوتِ قرآن پاک سے آغاز ہونے والا یہ بے مثال تمثیلی مشاعرہ استاذِ جامعہ مولانا عبدالعلیم خطیب ندوی کے شکرانہ اور دعائیہ کلمات سے قریب رات بارہ بجے اپنے اختتام کو پہنچا۔

DSC 0185

 

DSC 0154

DSC 0180

bhjk

(بقیہ تصاویر فوٹو گیلری میں دیکھ لیں)

Share this post

Loading...