انتخابی نتائج کے بعد شدت پسند عناصر بوکھلا گئے ہیں

دو دن قبل اُلال تعلقے کے تلپاڈی کے قریب موجود ایک گھر کے سامنے بیل کے کٹے پیر رکھ کر ماحول کو کشیدہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی ، اس کے ایک ہی دن بعد اسی علاقے کے ایک مندر کے صحن میں کٹے بیل کے فضلہ جات پھینک کر بھی ماحول میں بھنگ ڈالنے کی کوشش کی گئی تھی۔ مگر سکون چاہنے والے مقامی باشندے اور سیاسی لیڈران کی وجہ سے جہاں پوری طرح ماحول کو پر امن رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر وہیں یہ بات شر پسند عناصر کو ہضم نہیں ہورہی ہے اور ایک بار پھر دوبارہ اپنی گھناؤنی حرکات پر بضد ہیں۔حالیہ تازہ اطلاعات اور پھر منگلور کے کنڑا اخبارات میں چھپی رپورٹ کے مطابق کل رات کاپو شہر کے جامع مسجد پر پتھراؤکرتے ہوئے مسجد کے درودیوار کو نقصانے پہنچانے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔ یہ حادثہ کل رات بعد نمازِ عشاء پیش آیا ہے ۔ پتھراؤ کی وجہ سے مسجد کے مغربی جانب موجود شیشے ٹوٹ کر بکھر گئے ہیں۔ فجر نماز کے وقت عوام نے جب دیکھا تو خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور لوگوں کا ہجوم جمع ہونے لگا۔ اس موقع پر چاہے پولس واردات پر پہنچے یا نہ پہنچنے ، وعدے اور یقین دہانی تو ہوتی ہے مگر اس کے باوجود شر پسند عناصر دن بدن اپنے ناپاک منصوبوں سے باز نہیں آرہے ۔ لوگوں میں عام طور پر اس بات کی جانب زیادہ رجحان ہے کہ کانگریس کے دورِ اقتدار میں ہی زیادہ تر فرقہ وارانہ فسادات پیش آتے ہیں۔ کانگریسی لیڈران کے بیان کے مطابق دراصل حزبِ مخالف کانگریس کو بدنام کرنے کی کوشش کرتی ہے اس وجہ سے اس طرح کے اقدام کئے جاتے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ جب حکومت ان کی ،پولس ان کی تو پھر ایسے غنڈوں کو جو ایک بہترین سماج کے لئے ناسور بن گئے ہیں جیل کے سلاخوں کے پیچھے کیوں نہیں دھکیلا جاتا، غنڈہ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرکے ضلع بدر کرنے میں ضلع انتظامیہ کو آنا کانی نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس طرح کے عناصر سے جہاں ماحول میں خفگی پائی جاتی ہے وہیں ترقیات پر بھی بریک لگ جاتا ہے۔

Share this post

Loading...